Book Name:Rahmat-e-Ilahi Ka Mustahiq Bananay Walay Amaal

وغیرہ،یاد رہے !ایسے خیالات رکھنے والوں کی حدیثِ پاک میں مذمت کی گئی ہے ۔

نبیِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشادفرمایا:عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو اپنا تابعدار بنا لے اور موت کے بعد کے لئے عمل کرے اور عاجز وہ شخص ہے جو اپنی خواہشات پر چلتا ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی امید بھی کرتا ہو ۔ (مشکوۃ ج۳ ، ص۱۳۰،حدیث:۵۲۸۹)

حضرت یحییٰ بن معاذرازیرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ ارشادفرماتےہیں:’’کوئی حماقت اس  سے بڑھ کر نہ ہوگی کہ انسان دوزخ  کا بیج بوئے اورجنت کی فصل کاٹنے کی اُمید رکھے، کام گناہ گاروں والے اور مقام نیکوں والا تلاش کرے۔‘‘(کیمیائے سعادت، ج ۲،ص ۸۱۱ )

مرے گرچہ گناہ ہیں حد سے سوا مگر ان سے امید ہے تجھ سے رَجا

تُو رحیم ہے ان کا کرم ہے گوا وہ کریم ہیں تیری عطا کی قسم

(حدائقِ بخشش،ص۸۱)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                                                   صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمّد

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!گناہوں کے باوجود رحمتِ الٰہی  سے بخشش کی امید رکھنے کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان گناہوں پر دلیر(Bold)ہوجاتا ہےاور  گناہ کے بعد شیطان کی جانب سے اسی طرح کی میٹھی میٹھی باتیں قبول کرنے کی عادت ، پچھلے گناہوں پر ندامت  کے بجائے آئندہ گناہ کرنے کی جُرأت پیدا ہوجاتی ہے۔دوسرا نقصان یہ ہوتاہے کہ ایسے شخص کو نصیحت کی بات بُری محسوس ہوتی ہے اور مَعَاذَاللہ عَزَّ  وَجَلَّ ایسا شخص کبھی توعذابات پر مشتمل آیات و احادیث سے بیزاریت کا اظہار بھی کردیتا ہے۔یاد رہے! کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا یقین رکھنا واجب ہے،لیکن رحمت کو دلیل بنا کر گناہوں میں مشغول رہنا    بُرا کام ہے ۔