Book Name:Maut aur Qabr ki Tayyari

پھر اپنے نفس کی طرف مُتَوَجِّہ ہو کر فرماتے، اے ربیع! اب تجھے واپس لوٹا دیا گیا ہے بس اچھے عمل کر۔

ِحیاء العلوم،کتاب ذکر الموت ،الباب السادس فی اقاویل العارفین علی الجنائز الخ،۵/۲۳۸بتغیر قلیل)

          میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اس حکایت میں حضرت ربیع رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کا اپنے آپ کو مُخاطَب فرماتے ہوئے یہ کہنا کہ ”اے ربیع! اب تجھے واپس لوٹا دیا گیا ہے“یہ صرف اور صرف اپنے نفس کی اصلاح کے لئے تھا کہ اے ربیع تُو یہ سمجھ کہ زندگی کے باقی ایّام کی صورت میں تجھے یہ موقع نصیب ہورہا ہے کہ تو اعمالِ صالحہ کی بجا آوری کے ذریعے اپنی قبر و آخرت کو سنوار لے ۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ موت سے ہمکنار ہونے اور قبر کی آغوش میں سونے کے بعد کسی شخص کو نیک کام کرنے اور اپنی قبر و آخرت بہتر بنانے کا موقع نہیں دیا جائے گا جیساکہ

اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ایمان والوں کو خواب ِغفلت سے بیدار کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:

وَ اَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْ لَاۤ اَخَّرْتَنِیْۤ اِلٰۤى اَجَلٍ قَرِیْبٍۙ-فَاَصَّدَّقَ وَ اَكُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۰)وَ لَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰهُ نَفْسًا اِذَا جَآءَ اَجَلُهَاؕ-وَ اللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ۠(۱۱) ( پ ۲۸، ا لمنافقون:۱۰،۱۱)

تَرْجَمَۂ کنز الایمان:اور ہمارے دئیے میں سے کچھ ہماری راہ میں  خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں کسی کو موت آئے پھر کہنے لگے اے میرے رَبّ تُو نے مجھے تھوڑی مُدّت تک کیوں مہلت نہ دی کہ میں صدقہ دیتا اور نیکوں میں ہوتا اور ہرگز اللہکسی جان کو مہلت نہ دے گاجب اُس کا وعدہ آجائے اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔

          میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!معلوم ہوا کہ مرنے کے بعد انسان کو دنیا میں نیک کام نہ کرنے پر حسرت ہوگی اور نیک کام کی مہلت مانگنے کے باوجود اسے مہلت نہ دی جائے گی،لہٰذا عقْلمند شخص وہی ہے جو جتنا دنیا میں رہنا ہے اتنا دنیا کے لئے اور جتنا طویل عرصہ قبر و آخرت کا ہے، اتنا قبر و آخرت کی تیاری کے لئے مشغول رہے نیز قبر و آخرت کے عذاب سے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی پناہ مانگتے رہناچاہئے۔