Book Name:Isal-e-Sawab Ki Barkatain

مشہورمفسرِ قرآن،حکیمُ الاُمَّت مفتی احمدیارخان نعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:(میت) کی طرف سے پانی کی خیرات کرو کیونکہ پانی سے دِینی دنیوی منافع حاصل ہوتے ہیں، خصوصًا ان گرم و خشک علاقوں میں جہاں پانی کی کمی ہو،بعض لوگ سبیلیں لگاتے ہیں،عام مسلمان ختم،  فاتحہ وغیرہ میں دوسری چیزوں کے ساتھ پانی بھی رکھ دیتے ہیں ان سب کا ماخذ یہ حدیث ہے کیونکہ اس سے معلوم ہوا کہ پانی کی خیرات بہتر ہے۔ (مراۃ المناجیح،۳/۱۰۴تا۱۰۵، ملتقطاً و بتغیر )

شیخِ طریقت،امیرِاَہلسُنّتدَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہاپنے رسالے”فاتحہ اور اِیصالِ ثواب کا طریقہ“صفحہ نمبر11 پر فرماتے ہیں:سَیِّدُ نا سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے اِس ارشاد:”یہ اُمِّ سعد (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا) کیلئے ہے“کے معنیٰ یہ ہیں کہ یہ کُنواں سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی ماں کے اِیصالِ ثواب کیلئے ہے۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا گائے یا بکرے وغیرہ کو بُزُرگوں کی طرف مَنسوب کرنا مَثَلاً یہ کہنا کہ ”یہ سَیِّدُنا غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہکا بکراہے‘‘اس میں کوئی حَرَج نہیں کہ اس سے مُراد بھی یِہِی ہے کہ یہ بکرا غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے اِیصالِ ثواب کیلئے ہے۔ قربانی کے جانور کو بھی تو لوگ ایک دوسرے ہی کی طرف منسوب کرتے ہیں ، مَثَلاً کوئی اپنی قربانی کا بکرا لئے چلا آرہا ہو اور اگر آپ اُس سے پوچھیں کہ کس کا بکراہے ؟تو اُس نے کچھ اس طرح جواب دینا ہے،”میرا بکراہے“یا”میرے ماموں کا بکرا ہے۔ ‘‘جب یہ کہنے والے پر اعتِراض نہیں تو”غوثِ پاک کا بکرا‘‘کہنے والے پر بھی کوئی اعتِراض نہیں ہو سکتا۔حقیقت میں ہر شے کا مالک اللہعَزَّ  وَجَلَّ  ہی ہے اورقربانی کا بکرا ہو یا غوثِ پاک کا بکراذبح کے وقت ہرذَبِیْحَہ(یعنی جو ذبح ہورہا ہے اُس)پر اللہ کانام لیا جاتاہے۔اللہعَزَّ  وَجَلَّ وَسوَسوں سے نَجات بخشے۔

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                        صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد