Book Name:Ashabe Khaf Ka Waqiya

دَقْیَانُوْس بادشاہ کے ظلم و ستم سے اپنا ایمان بچانے کے لئے اصحابِ کہف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم بھاگے اور قریبی ایک پہاڑ میں غار کے اندر پناہ لے لی، وہاں سوگئے اور 300برس سے زیادہ عرصے تک اسی حال میں رہے۔تلاش کروانے پر بادشاہ کو معلوم ہوا کہ وہ ایک غار کے اندر ہیں تو اس نے حکم دِیا کہ غار کو ایک مضبوط دیوار کھینچ کر بند کردِیا جائے تاکہ وہ اس میں(بھوکے پیاسے)مر جائیں اور وہ غار ہی ان کی قبر ہوجائے، یہی ان کی سزا ہے۔(1)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آپ نے سنا کہ اصحابِ کہف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا ایمان کی حفاظت کے معاملے میں کس قدر زبردست مدنی ذہن بنا ہوا تھا کہ ان حضرات نے فتنوں سے بچنے اورسلامتیِ ایمان کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرکے غار میں پناہ لینا تو گوارا کرلیا، مگراللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کے علاوہ کسی اور کو معبود ماننے کیلئے  تیار نہ ہوئے،یہ بھی معلوم ہوا کہ فتنوں کے زمانے میں مخلوق سے علیحدگی اختیار کرنا ،ایمان کی حفاظت کا نہایت مؤثَّر ترین ذریعہ ہے۔

نبیِ کریم،رؤفٌ رَّحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:عنقریب فتنے ہوں گے جن میں بیٹھا ہو ا کھڑے شخص سے اچھا رہے گا اور کھڑا شخص چلنے والے سے اچھا رہے گا اور چلنے والا شخص دوڑنے والے سے اچھا رہے گا۔ جو اس (فتنے) کی طرف جھانکے گا تو وہ اسے بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔تو جسے بچاؤ کی کوئی جگہ یا پناہ گاہ ملے تو ا سے چاہئے کہ وہ اس میں پناہ لے لے۔(2)

مُفتی احمدیار خان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اس  حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں: بیٹھنے سے مراد ہے ان فتنوں سے الگ تھلگ رہنا،ان سے بالکل واسطہ نہ رکھنا،یہ ذریعہ ہوگا فتنوں سے حفاظت کا کہ وہ نہ فتنوں کو دیکھے گا نہ ان کا اثر لے گا۔اور کھڑے ہونے سے مراد ہے دُور سے انہیں دیکھنا،ان پر خبردار

مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ

[1] صِراطُ الجِنان،۵/۵۴۱،بتغیر قلیل

2 بخاری،کتاب الفتن،باب تکون فتنۃ القاعد الخ، ۴/۴۳۶،حدیث:۷۰۸۲