Book Name:Ashabe Khaf Ka Waqiya

قدموں کی خاک سببِ حیات بن گئی٭نبیوں عَلَیْہِمُ  السَّلام کی نسبت کا صدقہ تھا کہ بنی اسرائیل تابوتِ سکینہ کی برکت سے دشمنوں پر فتح پالیتے٭نسبت ہی کی برکت تھی کہ حضرت سَیِّدُنا یوسف عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جسمِ اطہر سے چُھو جانے والی مُبارَک قمیص کے سبب حضرت سَیِّدُنا یعقوب عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بِینائی لوٹ آئی ٭مخصوص ملکوں،شہروں،علاقوں،گلی کُوچوں، قصبوں، محلوں، مہینوں، دِنوں،تاریخوں، قوموں،مقامات و شخصیات حتّٰی کہ روز مَرَّہ  استعمال ہونے والی عام سی چیزوں کے قابلِ احترام اور لائقِ تعظیم ہوجانے میں اسی نسبت کا فیضان ہے۔

مُفَسِّرِ شَہِیر،حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نسبت کی اہمیت کو مزید اُجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:صفا اور مروہ وہ پہاڑ ہیں جن پر حضرت سَیِّدَتُنا ہاجِرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا پانی کی تلاش میں 7 بار چڑھیں او ر اُتریں۔اُس اللہ والی کے قدم پڑجانے کی بر کت سے یہ دونوں پہاڑاللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کی نشانی بن گئے اور قیامت تک حاجیوں پراس پاک بی بی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی نقل اُتارنے میں ان پر چڑھنا اور اُتر نا7 بار لازم ہوگیا۔ بزرگوں کے قدم لگ جانے سے وہ چیز اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کی نشانی بن گئی۔مقامِ ابراہیم وہ پتھر ہے، جس پر کھڑے ہوکر حضرت سَیِّدُنا ابراہیم خلیلُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کعبۂ معظمہ کی تعمیر کی، وہ بھی حضرت سَیِّدُنا ابراہیم خلیلُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی برکت سے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کی نشانی بن گیا اور اس کی تعظیم ایسی لازم ہوگئی کہ طواف کے نفل اس کے سامنے کھڑے ہوکر پڑھنا سُنّت ہوگئے کہ سجدے میں سر اس پتھر کے سامنے (اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کی بارگاہ میں)جھکے۔جب بزرگو ں کے قدم پڑجانے سے صفا مروہ اور مقامِ ابراہیم اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کی نشانی بن گئے اور قابلِ تعظیم ہوگئے تو انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلام اور اولیائے کرام رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن  کی قبریں کہ جن میں یہ حضرات دائمی قیام فرما ہیں، یقیناً اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کی نشانیاں ہیں اور ان کی تعظیم لازم ہے۔اَصحابِ کہف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے غار جس میں وہ آرام فرما ہیں گزشتہ زمانے کے مسلمانوں نے وہاں مسجد بنائی اور رَبّ عَزَّ  وَجَلَّ نے ان کے کام پر ناراضی کا اظہار نہ کیا،جس