Book Name:Barakate Makkah Aur Madinah

اَحوال سُنتےہیں چنانچِہ

       جب مدینۂ پاک کی طرف آپ   کی روانگی کی مبارَک گھڑی آئی تو ائیر پورٹ(Airport) پر عاشقانِ رسول آپ کو اَلوَداع کہنے کے لئے مَوجود تھے،مدینے کے دیوانوں نے آپ  کو حلقے(یعنی دائرے) میں لے کر نعتیں پڑھنا شروع کردیں۔سوزوگُدازمیں ڈُوبی ہوئی نعتوں نے عُشّاق کی آتش ِعشق کو مزید بَھڑکا دیا۔غمِ مدینہ میں اُٹھنے والی آہوں اور سِسْکیوں سے فَضا سوگْوار ہوئی جارہی تھی،خود عاشقِ مدینہ اَمِیْرِ اَہلسنّت کی کَیْفیَّت بڑی عجیب تھی۔آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جَھڑی لگی ہوئی تھی اورآپ اپنے اِن اَشْعار کے مِصْداق نَظَر آرہے تھے کہ

آنسوؤں کی لَڑی بن رہی ہو             اور آہوں سے پَھٹتا ہو سینہ

وردِ لَب ہو "مدینہ مدینہ"              جب چَلے سُوئے طیبہ سفینہ

(وسائلِ بخشش مرمم،ص۱۸۸)

         عشق و اُلفت کا یہ نِرالا انداز ہر ایک کی سمجھ میں تو آنہیں سکتا کیونکہ حاضِریِ طیبہ کے لئے جانے والے تو عُموماً خوش ہوتے ہوئے ،مبارَکبادیا ں وُصول کرتے ہوئےجاتے ہیں اور یہ کوئی ناجائز بھی نہیں البتہ امیرِ اہلسنت دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہاپنے کلام میں ایسے زائرینِ مدینہ کا مَدَنی ذِہْن بناتے ہوئے فرماتے ہیں:

ارے زائرِمدینہ!تُو خوشی سے ہنس رہا ہے      دلِ غمزَدہ جو لاتا تو کچھ اَور بات ہوتی

(وسائلِ بخشش مرمم،ص۳۸۵)

       بِالآخِر اِسی مدینے کےخیال میں گم ہوجانےکے عالَم میں سَفَرِ مدینہ کا آغاز ہوا،جُوں جُوں منزِل  قریب آتی رہی،آپ کے عشق کی شِدّت بھی بڑھتی رہی۔اُس پاک سَرزمین پر پَہُنْچتے ہی آپ نے جُوتے اُتار لئے۔اللہ! اللہ! مِزاج ِعشقِ رسول سے اِس قدَر جان پہچان رکھنے والے کہ خُود ہی کلام میں فرماتے ہیں: