Book Name:Sadqay ki Baharain ma Afzal Sadqaat

حالانکہ صَدَقہ چاہے کم ہو یا زیادہ، اگر مالِ حلال سے اِخلاص کے ساتھ دِیا جائے تو یقیناً ثواب کے لحاظ سے بہت ہی عُمدہ ہے  جیسا کہاعلیٰ حضرت اِمام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے والدِ گرامی حضرت مولانا مُفتی نَقی علی خان رَحمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ ارشاد فرماتے ہیں:صَدَقہ دینے میں تھوڑی چیز کو بھی حقیر نہ جانو، اگرچہ زیادہ کی استطاعت بھی ہو، ہاتھ پہنچتا ہے (یعنی انسان صَدَقہ دینے کا اِرادہ کرلیتا ہے)مگر شیطان روکتا ہے،نفس آڑے آتا ہے، ایک شیطان کیا ستّر(70) شیطان صَدَقے سے باز رکھتے ہیں۔

حدیث شریف میں ارشاد ہوا: انسان اپنا صَدَقہ ستّر(70) شیطانوں کے جبڑے چیر کر نکالتا ہے۔(1)تو ایسی حالت میں تھوڑا ہی دے اور اُسے حقیر جان کر بالکل لَا تَعَلُّق نہ ہو ،کیونکہ تھوڑی چیز سے بھی محتاج کی ضرورت کسی حد تک پوری ہوگی اور بُخْل کی جَڑ دل پر جمنے میں کچھ تو کمی آئے گی۔(2)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یقیناً یہ دُنیا فانی ہے اور اِس سے دل لگانا بہت بڑی نادانی ہے، کیونکہ ہم میں سے ہر کسی کو ایک نہ ایک دن مَوت آنی ہے ،لہٰذا عقلمندی کاتقاضا یہی ہے کہ انسان اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اُس کے مدنی حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بتائے ہوئے کاموں میں لگ جائے،عبادتِ الٰہی کی کثرت کرے، سنّتوں بھری زندگی گُزارے،بقدرِ ضرورت حلال روزی کمائے، مال سے ہرگز دل نہ لگائے، مالِ حرام کمانے سے بالکل بچےاور ہمیشہ صرف اور صرف حلا ل ہی کمائے اور اس حلال مال کو بھی اپنی جائز حاجتوں اور ضروریات میں خرچ کرتا رہے اور اسی حلال مال سے راہِ خدا میں خُوب خُوب صَدَقہ و خَیْرات کرکے غریبوں، مسکینوں، حاجت مندوں ،اپنے قریبی رشتے داروں اور دینی طَلَبۂ کرام کا سہارا بنے،اُن کے دُکھ دَرد کو اپنا دُکھ دَرد سمجھے اور اُن کی دُعائیں لینے کی کوشش کرے۔مگر افسوس! آج کل صَدَقہ و خَیْرات کے ذریعے غریبوں کی مَدَد کرنے اور نیکی کے کاموں میں مال خرچ کرنے کے بجائے فضول  اور غیر ضروری کاموں کیلئے تو اپنے خزانے کے مُنہ کھول دئیے جاتے ہیں، مگر اس بات کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی کہ

مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ

[1] مجمع الزوائد، کتاب الزکاۃ، باب ارغام الشیطان بالصدقۃ، ۳/۲۸۲، حدیث: ۴۶۰۱

2… فضائلِ دُعا،ص۲۷۶بتغیرقلیل