Book Name:Fazail e Hasnain Karimain

عقیقہ کرو، اور بالوں کو اُتار کر اس کے وزن  کے برابرچاندی خیرات کردو۔چنانچہ ساتویں روز یہ عمل کیا گیا۔( کنزالعمال،ج۸،حصہ ۱۶،ص۲۵۲، ح۴۵۹۹۳)

اُمُّ الْمُؤمنىن حضرت سَیّدَتُنا عائشہ صدىقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہىں کہ نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت سَیّدُناامام حَسن اورامام حُسىن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا  کى پىدائش کے ساتوىں دن ان کى طرف سے دو دو بکرىاں عَقىقہ مىں ذَبْح فرمائیں۔(مصنف  عبد الرزاق ،باب العقیقہ ،۴/٣٣٠,حديث:۷۹۶۳)

عقیقہ کب کرنا چاہیے؟:

 شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت، بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّارقادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنے رسالے’’عقیقہ کے بارے میں سوال جواب ‘‘ میں ’’ فتاویٰ رضویہ ‘‘کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں: میرے آقا اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت، مولاناشاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰنفرماتے ہیں:عقیقہ ولادت کے ساتویں روز  سُنّت ہے اور یہی اَفْضل ہے، ورنہ چَودہویں،ورنہ اِکّیسویں دن۔(فتاوٰی رضویہ ج ۲۰ ص ۵۸۶) صدرُالشَّریعہ،بدرُ الطَّریقہ،حضرتِ  علّامہ مولانا مُفْتی محمد اَمْجد علی اَعْظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی فرماتے ہیں:عقیقے کیلئے ساتواں دن بہتر ہے اور اگر  ساتویں دن نہ کرسکیں تو جب چاہیں کرسکتے ہیں ، سُنّت اَدا ہوجائے گی ۔ بعض نے یہ کہا کہ ساتویں یا چودہویں یا اِکّیسویں دن یعنی سات دن کا لحاظ رکھا جائے یہ بِہتر ہے اور یاد نہ رہے تو یہ کرے کہ جس دن بچّہ پیدا ہو اُس دن کو یاد رکھیں، اُس سے ایک دن پہلے والا دن جب آئے تو وہ ساتواں ہوگا، مَثَلاً جُمُعہ کوپیدا ہوا تو جُمعرات ساتواں دن ہے اورسنیچر(یعنی ہفتے)کوپیداہواتوساتواں دن جُمعہ ہوگاپہلی صورت میں جس جمعرات کو اور دوسری صورت میں جس جُمعہ کو عقیقہ کرے گا اس میں ساتویں دن کا حساب ضَرور آئے گا۔ (بہارِشریعت ج۳ص ۳۵۶)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب !  صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد