امّ المؤمنین حضرت  سیدتنا میمونہ رضی اللہ  تعالٰی عنہا

عشقِ رسول، عِلْم وحکمت،تقویٰ وپرہیزگاری اور شریعت کی پاس داری اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا میمونہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی مُبَارَک سیرت کے نمایاں اوصاف ہیں۔ذوالقعدۃُ الحَرام 7 ہجری کو جب پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  عمرۃ القضاء کی ادائیگی کے لئے مکۂ مکرمہ تشریف لائے تب چچا جان حضرت عبّاس   رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی درخواست پر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرت میمونہ   رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو نِکاح کا پیغام بھیجا۔ جب آپ کو پیغامِ نکاح ملاتو اُس وَقْت آپ اُونٹ پر سوار تھیں، یہ دل افروز خبر سنتے ہی فرطِ مَسَرَّت سے کہنے لگیں: اَلْبَعِیْرُ وَمَا عَلَیْہِ لِلّٰہِ وَ لِرَسُوْلِہٖ یعنی اونٹ اور جو اس پر ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے ہے۔(فیضانِ امہات المؤمنین،ص321ملخصاً وسیرت حلبیہ،ج3، ص91)

نام وخاندان: آپ کا نام پہلے بَرَّہ“تھا،جس کا معنیٰ نیک اور صالحہ ہے۔سرکارِاَقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تبدیل فرما کر”میمونہ“رکھا (جس کا معنی  ہے: مُبَارَک)۔آپ کے والِد کا نام’’حارث‘‘ہے اور والِدہ ”ہند بنتِ عوف“ ہیں۔(سبل الہدیٰ،ج11، ص207)

معلوم ہواایسے نام جن میں تزکیۂ نفس اور خود ستائی (یعنی اپنی تعریف)نکلتی ہے، ان کو بھی پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تبدیل فرمادیا کرتے تھے۔(مسلم، ص911، حدیث:5607ملخصاً)

خوفِ خدا: خوف وخَشِیَّتِ الٰہی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا خاص وَصْف تھا حتّٰی کہ اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ   رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ حضرت میمونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا ہم میں سب سے زیادہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرنے والی اور صلۂ رحمی کرنے والی تھیں۔(مستدرک،ج5، ص42، حدیث:6878)

فَہم وفراست: حکمت ودانائی اور فہم وفراست میں بھی آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو کمال حاصل تھا،چنانچہ سفرِ حج کے موقع پر صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو یومِ عَرَفہ (9 ذوالحجۃ الحرام) کے روزے کے بارے میں شک ہوا کہ سیِّدِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم روزے سے ہیں یا نہیں؟ جب اُمُّ المؤمنین حضرت میمونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو اس کی اِطِّلَاع ہوئی تو آپ نے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمتِ اقدس میں دودھ کا پیالہ بھیجا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دودھ نوش فرما لیا۔ (بخاری،ج1، ص654، حدیث:1989) اس طرح صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو معلوم ہو گیا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس دن روزے سے نہیں ہیں۔

انتقالِ پُرملال: آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے 51ھ میں انتقال فرمایا۔ (شرح الزرقانی علی المواھب،ج 4، ص423) جب مرضِ وفات نے شدّت اختیار کی تو فرمانے لگیں: مجھے مکہ شریف سے باہَر لے جاؤ کیونکہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھے بتایا ہے کہ میرا انتقال مکہ میں نہیں ہو گا چنانچہ جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو مکہ شریف سے باہَر مقامِ سَرِف میں اس درخت کے پاس لایا گیا جہاں آپ نِکاح کے بعد رخصت ہو کر آئی تھیں تو آپ کا انتقال ہو گیا۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی،ج6، ص437)

مزار مُبَارَک: آپ کا مزار مُبَارَک سَرِف میں ہی واقع ہے۔ یہ مکۂ مکرمہ کے شمال مغرب میں مسجدِ حرام سے قریباً 17 کلومیٹر کے فاصلےپر ہے، موجودہ نام نواریہ (Nawwariyyah) ہے۔ یہ مزار مبارَک سڑک کے بیچ میں ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ سڑک کی تعمیر کیلئے اِس مزار شریف کو شہید کرنے کی کوشش کی گئی تو ٹریکٹر (TRACTOR) اُلَٹ جاتا تھا، ناچار یہاں چار دیواری بنا دی گئی۔ہماری پیاری پیاری امّی جان سیِّدَتُنا میمونہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی کرامت مرحبا!(عاشقانِ رسول کی 130حکایات،ص245 ماخوذاً)


Share

امّ المؤمنین حضرت  سیدتنا میمونہ رضی اللہ  تعالٰی عنہا

اسلام سے پہلے ماں کا مقام : ماں وہ پاکیزہ رشتہ ہے کہ جس کا خیال آتے ہی ایثار،قُربانی،وفاداری اورشفقت و مہربانی کی تصویرآنکھوں کے سامنے آ جاتی ہےلیکن افسوس اِسلام سے پہلے محبّت و رَحمت کی پَیکر ماں  کو  زمانَۂ جاہلیت نے اذیّتوں اور دُکھوں کے سوا کچھ نہ دیا۔اپنا ہی بیٹا باپ کے مرنے کے بعد ماں کو مہر کے بدلے فروخت کر دیتا،کبھی اسی ماں کو جائیداد کی طرح بانٹ لیتاتوکبھی باپ کی بیوہ کو (مَعَاذَ اللہ)بیوی بنا لیتا۔ اسلام نےان جاہِلانہ رُسومات کایوں خاتمہ فرمایا:ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والوتمہیں حلال نہیں کہ عورتوں کےوارث بن جاؤ زبردستی (پ4، النساء:19)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) دوسرے مقام پرفرمایا:”اور باپ دادا کی منکوحہ سے نکاح نہ کرو (پ4،النساء:22) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اسلام سے پہلے ماں کونہ صرف وراثت سے محروم کر دیا جاتا بلکہ اس کی اپنی  دولت چھین کر اُسے”مال و متاع“ کی طرح آج اِدھر تو کل اُدھر  رہنے پر مجبور کردیاجاتاجبکہ اسلام نے ماں کو وراثت میں سے کبھی  چھٹے توکبھی  تیسرے  حصّے کا حق دار قرار دیا۔(پ4،النساء : 11)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اسلام نے ماں کو عظمت دی:اسلامی تعلیمات سے دور، غیراِسلامی مُعاشَروں میں آج بھی ماں کی حالت دورِجاہلیت کے رَوَیّوں سے زیادہ مختلف نہیں ۔جس  ماں نے  نو(9)مہینے تک خونِ جگر سے بچے کی پرورش کی،اس کی ولادت کی تکلیفوں کو برداشت کیا، ولادت کے بعد اس کی راحت کے لئے اپنا آرام و سکون  نچھاور کیا اُس ماں کو گھر میں  عزّت  کا مقام دینے کی بجائے    نہ صرف اس کی خدمت سے  جی چرا یا بلکہ کُتّوں کو اپنے ساتھ بستر پر جگہ دے کر ماں کو اولڈ ہاؤس(Old House)کے سپرد کر دیا ہےجبکہ اِسلام میں عورت بحیثیت ماں ایک مُقدّس مقام رکھتی ہے۔ماں کے قدموں تَلے جنّت، اس کی ناراضی میں رب عَزَّ وَجَلَّ  کی ناراضی اور اس کی رضا میں رب عَزَّ وَجَلَّ کی رضا پَوشیدہ ہے۔ اسلام اولاد کو ماں  کی خدمت  اور اس کے ساتھ حُسنِ سُلوک کا پابند بناتا ہے۔

رسولُاللہ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنی رضاعی والدہ حضرت حلیمہ سعدیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہا  کے آنے پر اُن کےلئے اپنی مُبارَک چادر بچھادی۔(ابوداؤد،ج4،ص434، حدیث:5144)

 ایک صحابی   رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنہکے تین بار یہ پوچھنے پر کہ میرے حُسنِ سُلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے ؟تین بار فرمایا: تیری ماں، چوتھی بار اسی سوال کے جواب میں فرمایا :تیرا باپ۔(بخاری،ج4، ص93 ، حدیث: 5971)

ماں کی خدمت کا درس:اسلام ماں کی خدمت  کا درس دیتا اور اطاعت گزار اولادکے لیے محبت و شفقت سے ماں یا باپ  کے چہرے پر ڈالی جانے والی ہر نظر کے بدلے مقبول حج کی بشارت عطا فرماتا ہے۔(شعب الایمان،ج6، ص186، حدیث:7856) یہ اسلام ہی ہے جس نے والدہ کو جنّت کا درمیانی دروازہ قرار دیا۔ (مسنداحمد،ج 8، ص169، حدیث: 21785) ماں کی خدمت نے ہی ایک قصّاب (گوشت کا کام کرنے والے) کو جنّت میں حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کا پڑوسی بنا دیا۔ (درّۃُ الناصحین،ص52)

بزرگانِ دین کا اپنی ماؤں کے ساتھ رویہ:جن ماؤں نے اپنی اولاد کو اسلام کی تعلیم دی انہوں نے اپنےاَقوال واَفعال سے ماں کی عظمت کو یوں ظاہر فرمایا: حضرت عبداللہ بن عَونرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے والدہ کے سامنے آواز اُونچی ہو جانے پر دوغلام آزاد کئے ۔(حلیۃ الاولیاء،ج 3، ص45،رقم:3103) مشہور تابعی بزرگ حضرت طَلْقْرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اُس مکان کی چھت پر تعظیماًنہ چلتے جس کے نیچے ان کی والدہ ہوتیں۔(بر الوالدین، ص78)

اسلام کے ان احسانات  کی قدرکرتے ہوئے ہر ”ماں“ کو چاہئے کہ خود بھی  اسلام کی تعلیمات پر عمل کرےاور اپنی اولاد کو بھی علم ِ دین کے زیور سے آراستہ کرے۔

اسلام نے ماں کو کتنی عظمت سے نوازا ،اس کے متعلق مزید جاننے کے لئے امیرِ اہلسنّتدَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ  کے رسالے”سمندری گنبد“ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ) کا مطالعہ کیجئے۔


Share

امّ المؤمنین حضرت  سیدتنا میمونہ رضی اللہ  تعالٰی عنہا

کانچ کی چوڑیاں پہننا

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ عورت مروجہ کانچ کی چوڑیاں پہن سکتی ہے؟

سائل: محمد سعید (صدر، باب المدینہ کراچی)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ

 اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

عورت کانچ کی چوڑیاں پہن سکتی ہے بلکہ شوہر کیلئے  سنگار کی نیّت سے مُسْتَحَب اور اگر والدین یا شوہر نے حکم دیا تو اب اس پر چوڑیاں پہننا واجب ہوگا۔

سَیِّدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن سے سوال ہوا ”چوڑیاں کانچ کی عورتوں کوجائز ہیں پہننا یا ناجائز ہیں؟‘‘تو آپ نے جواب ارشاد فرمایا ”جائز ہیں لِعَدَمِ الْمَنْعِ الشَّرْعِیِّ (مانع شرعی نہ ہونے کی وجہ سے ) بلکہ شوہر کے لئے سِنگار کی نیّت سے مستحب، وَاِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالنِّیَّات (ترجمہ:اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے) بلکہ شوہر یا ماں یا باپ کا حکم ہو تو واجب، لِحُرْمَۃِ الْعُقُوْقِ وَلِوُجُوْبِ طَاعَۃِ الزَّوْجِ فِیْمَا یَرْجِعُ اِلَی الزَّوْجِیَّۃِ (ترجمہ: والدین کی نافرمانی حرام ہونے اور میاں بیوی کے آپس کے اُمور میں شوہر کی اِطاعت واجب ہونے کی وجہ سے)۔“(فتاویٰ رضویہ،ج22،ص115،116) وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم 

کتبــــــــــــــــــــــہ

ابوالصالح محمد قاسم القادری

20شعبان المعظم1437ھ/28مئی2016ء

محرم کے بغیر عمرے پر جانا

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس بارے میں کہ پاکستان سے  دو عورتیں  جوشادی شدہ ہیں اور وہ عمرے پر جانا چاہتی ہیں ان کے ساتھ ان  کاکوئی مَحْرَم نہیں ہے۔ کیا وہ کسی ایسے  گروپ کے ساتھ جس میں بہت سے غیر مرد اور عورتیں ہوں ان کے ساتھ عمرہ کرنے جاسکتی ہیں؟

سائل: محمد علی رضا (مانوالہ،پنجاب)

 

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ

 اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

صورتِ مسئولہ میں اُن عورتوں کا بغیر مَحْرَم  کسی گروپ کے ساتھ عُمرے پرجانا جائز نہیں کہ حکمِ شرعی یہ ہے کہ عورت کا شوہر یا مَحْرَم کے بغیر تین دن (یعنی 92 کلو میٹر) کی راہ کاسفر ناجائز و حرام و گناہ ہے۔ خواہ سفرحج و عمرے کے لئے ہو یا کسی اور غرض سے،اگر چلی گئی تو قدم قدم پر اس کے لئے گناہ لکھا جائے گا۔ لہٰذا ان  کو چاہئے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ وَ رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اِطاعت کو بجا لاتے ہوئے جب تک کسی مَحْرَم کا ساتھ نہ ہو اِس اِرادے کو ترْک کر دیں، یاد رکھئے کہ عُمرہ سے مقصود اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا اور ثواب حاصل کرنا ہوتا ہے لہٰذا شرعی تقاضوں کے مطابق ہی یہ نیک کام کیاجائے اور اللہ تعالٰی اور اس کے رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اَحکامات کی خِلاف ورزی اور گناہ سے بہر صورت بچا جائے۔

حضرت سَیِّدُنا ابو ہُریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے حضور نبیِّ رحمت،شفیعِ امت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:”لَا تُسَافِرُ اِمْرَأَةٌ مَسِيْرَةَ ثَلَاثَةِ اَيَّامٍ، اِلَّا مَعَ ذِيْ مَحْرَمٍترجمہ: کوئی عورت تین دن کی مسافت ذی رحم محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔(مسندِ امام احمد،ج14، ص235)وَاللہُ اَعْلَمُ وَ رَسُوْلُہ اَعْلَم عَزَّوَجَلَّ وَ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

محمد  ہاشم خان العطاری المدنی

25ربیع الآخر 1438 ھ/24جنوری7 201 ء


Share

Articles

Comments


Security Code