قسطوں پر موبائل خرید کر اسی دکاندار کو نقد میں بیچناکیسا؟

احکامِ تجارت

*مفتی ابومحمد علی اصغر عطّاری مدنی

 ( 1 )  رقم صدقہ کرنے کی نیت سے سودی بینک

میں سیونگ  اکاؤنٹ کھلوانا کیسا ؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم نے سنا ہے کہ کنوینشنل بینک میں کرنٹ اکاؤنٹ کھلواسکتے ہیں لیکن سیونگ اکاؤنٹ نہیں کھلواسکتے۔ یہ ارشاد فرمائیں کہ اگر کنوینشنل بینک میں سیونگ اکاؤنٹ اس نیت سے کھلوالیا جائے کہ جو اضافی رقم حاصل ہوگی وہ صدقہ کردیں گے تو کیا یہ جائز ہوگا ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : کنوینشنل  ( سودی )  بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوانا حرام و گناہ ہے کیونکہ اس میں رکھوائی جانے والی رقم قرض کے حکم میں ہے اور بینک اس قرض پر اکاؤنٹ ہولڈر کو نفع دیتا ہے اور قرض پر نفع کو حدیث پاک میں واضح طور پر سود قرار دیا گیا ہے۔

حدیثِ مبارک میں ہے : ” کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفِعَۃً فَھُوَ رِبًا “ ترجمہ : قرض کے ذریعہ سے جو منفعت حاصل کی جائے وہ سود ہے۔

 ( کنز العمال ، جزء6 ، 3 / 99 ، حدیث : 15512 )

جب کوئی شخص سودی بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھلواتا ہے تو اکاؤنٹ کھلواتے وقت ہی کچھ نہ کچھ رقم اکاؤنٹ میں جمع کروائی جاتی ہے اور اس کے ساتھ ہی سودی معاملہ شروع ہوجاتا ہے حالانکہ سود کا لین دین حرام و گناہ ہے اور اس پر سخت وعیدیں ہیں۔

چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے : ” لعن رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اٰکل الربا و موکلہ و کاتبہ و شاھدیہ و قال ھم سواء “ ترجمہ : حضورِ اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے سود کھانے والے اور سود کھلانے والے اور سودی کاغذ لکھنے والے اور اس پر گواہ بننے والوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا وہ سب برابر ہیں۔   ( مسلم ، ص663 ، حدیث : 4093 )

لہٰذا سودی بینک میں سیونگ اکاؤنٹ کھلوانا ہرگز جائز نہیں اگرچہ اضافی رقم صدقہ کرنے کی نیت ہو۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 ( 2 ) قسطوں پر موبائل خرید کر اسی دکاندار کو نقد میں بیچنا کیسا ؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم قسطوں پر خرید و فروخت کا کام کرتے ہیں بعض اوقات کسٹمر آکر کہتا ہے کہ مجھے قسطوں پر موبائل لینا ہے اور پھر اسے آگے فروخت کرنا ہے کیونکہ مجھے پیسوں کی ضرورت ہے۔ کیا ایسے کسٹمر کو چیز بیچ سکتے ہیں جس کا مقصد اس کو خرید کر استعمال کرنا نہیں بلکہ آگے فروخت کرنا ہے ؟

 دوسرا سوال یہ ہے کہ اس کسٹمرکو چیز قسطوں پر بیچنے کے بعد کیا دکاندار اس سے واپس نقد میں کم قیمت پر خرید سکتا ہے ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب :  ( 1 )  گاہک نے جب چیز خرید لی تو وہ اس کا مالک ہوگیا اب چاہے وہ چیز آگے کسی کو بیچے یا تحفے میں دے یا استعمال کرے یہ اس کی مرضی ہے اس کو یہ اختیار حاصل ہے لہٰذا گاہک کو وہ چیز قسطوں میں بیچنا ، جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔

واضح رہے کہ قسطوں پر کاروبار کرنا دراصل ادھار خرید و فروخت ہی کی ایک قسم ہے جس میں چیز نقد کے مقابلے میں زائد قیمت پر بیچی جاتی ہے اورقیمت کی ادائیگی بھی قسطوں کی صورت میں ہوتی ہے۔ نقد اور اُدھار کی قیمتوں میں فرق کرنا شرعاً جائز ہے لہٰذا قسطوں پر خرید و فروخت بھی جائز ہے جبکہ سودا کرتے وقت چیز کی قیمت طے ہو اور قیمت کی ادائیگی کی مدت بھی طےہو۔

البتہ اگر اس کاروبار میں کوئی ناجائز شرط لگائی تواس ناجائز شرط کی وجہ سے وہ بیع فاسد ہوجائے گی جیسے یہ شرط لگانا کہ ” اگر قسط وقت پر نہ دی تو جرمانہ دینا ہوگا “ ناجائز شرط ہے کیونکہ شریعت میں مالی جرمانہ جائز نہیں ، لہٰذا اس شرطِ فاسد کی بنا پر یہ بیع فاسد ہوگی جس کا فسخ کرنا عاقدین پر واجب ہوگا ، اگر فسخ نہ کریں تو گنہگار ہوں گے۔

 ( 2 )  جب کسٹمر نے خریدی ہوئی چیز کی قیمت مکمل طور پر ادا نہ کی ہو تو دکاندار کا وہی چیز کسٹمر سے کم قیمت میں واپس خریدنا جائز نہیں۔ لہٰذا دریافت کی گئی صورت میں چونکہ دکاندار نے موبائل قسطوں میں بیچا ہے اور ابھی اس موبائل کی مکمل قیمت ادا نہیں ہوئی ہے لہٰذا دکاندار نے جس قیمت پر بیچا ہے اس سے کم قیمت میں کسٹمر سے وہ موبائل نقد میں بھی واپس نہیں خرید سکتا۔ ہاں اگر اس میں کوئی نقصان پیدا ہوگیا ہو تو پھر کم قیمت میں بھی خرید سکتا ہے۔

صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرَّحمہ لکھتے ہیں : ” جس چیز کو بیع کردیا ہے اور ابھی ثمن وصول نہیں ہوا ہے اس کو مشتری سے کم دام میں خریدنا ، جائز نہیں اگرچہ اس وقت اس کانرخ کم ہوگیا ہو۔  “

مزید لکھتے ہیں : ” کم داموں میں خریدنا اُس وقت ناجائز ہے جب کہ ثمن اُسی جنس کاہو اور مبیع میں کوئی نقصان نہ پیدا ہوا ہو اور اگر ثمن دوسری جنس کاہو یامبیع میں نقصان ہواہو تو مطلقاًبیع جائز ہے۔  ( بہارِ شریعت ، 2 / 708 )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 ( 3 ) زمین بلڈر کی ملکیت میں نہ ہوتو

پلاٹ یا فلیٹ کی بکنگ کروانا کیسا ؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلے کے بارے میں کہ بلڈر کے پاس جب ہم پلاٹ یا فلیٹ کی بکنگ کرواتے ہیں تو بعض اوقات جگہ اس کی ملکیت میں نہیں ہوتی تو کیا ایسی بکنگ کرواسکتے ہیں ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : پوچھی گئی صورت میں فلیٹ کی بکنگ کرواناتو جائز ہے کیونکہ یہ بیع استصناع ہے یعنی آرڈر پر چیز بنا کر دینا اس میں پایا جاتا ہے لہٰذا اس میں کوئی حرج نہیں۔

لیکن قانونی طور پر بلڈر کے لئے اگر یہ ضروری ہو کہ وہ پلاٹ کا مالک بننے سے پہلے پروجیکٹ کا اعلان نہیں کر سکتا تو ایسے میں بلڈر کو قانونی پابندی  کرنا ضروری ہوگا۔

واضح رہے کہ یہ مسئلہ فلیٹ بک کروانے کا ہے کیونکہ اس میں میکنگ کا عمل پایا جاتا ہے ۔اسی لئے یہ رعایت موجود ہے کہ فلیٹ کا اس وقت موجود ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ بنا کر دئیے جائیں گے۔ لیکن پلاٹ کی خرید و فروخت کا مسئلہ اس سے جدا ہے کہ پلاٹ خریدتے وقت یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہ پلاٹ بیچنے والے کی ملکیت میں ہو اور وہ آپ کے پلاٹ کی حدودِ اربعہ متعین کرکے دے کہ یہ آپ کا پلاٹ ہے۔ یعنی نقشے میں پلاٹ نمبر ، گلی نمبر ، فیز / کالونی / سیکٹر وغیرہ سب چیزیں متعین ہوں اور بات نقشے تک محدود نہ ہو ، بلکہ حقیقت میں بھی اسی طرح ہو کہ اگر آپ پلاٹ پر کھڑے ہو کر دیکھنا چاہیں ، تو آپ وہاں کھڑے ہو کر معلوم کر سکتے ہوں کہ یہ پلاٹ آپ خرید رہے ہیں۔

لیکن اگر پلاٹ بلڈر کی ملکیت میں ہی نہ ہو یا خریدتے وقت معلوم ہی نہ ہو کہ کون سا پلاٹ خریدا ہے تو یہ صورت جائز نہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* محققِ اہل سنت ، دارالافتاء اہلِ سنت  نور العرفان ، کھارادر کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code