قارئین! انسان کو زندگی میں حوصلہ افزائی کرنے والے اور حوصلہ شکنی کرنے والے دونوں قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ البتہ یہ ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم حوصلہ شکنی کے جواب میں کیا کرتے ہیں
مجھے ایک اسٹوڈنٹ نے بڑے اُداس لہجے میں بتایا کہ چار برس پہلے ہمارے جامعہ میں حُسنِ قرأت کا مقابلہ (Competition) ہونے والا تھا ،
اے عاشقانِ رسول! ہماری زندگی میں بھی کئی مراحل ایسے آتے ہیں جب ہم صرف وہ کام کرتے ہیں جس میں ہمارا فائدہ ہو۔ یہ انسان کی طبیعت میں شامل ہے۔
ایک شخص کسی گاؤں میں جارہاتھا کہ ایک خوف زدہ بھیڑیا (Wolf) دوڑتاہوا اُس کے پاس آیا اور فریادکرنے لگا : اے رحم دل انسان!شکاری (Hunters) میرے پیچھے پڑے ہیں ،
پنجاب میں ساندل بار کےپولیس اسٹیشن میں ایک شخص نے اپنی تین سالہ بچّی کے اغوا کی رپورٹ درج کرائی کہ وہ اپنی بیٹی کے ساتھ مزار پر گیا تھا
کم وبیش 12سو سال پہلے کے بُزرگ حضرت سیّدنا معروف کرخی رحمۃُ اللہِ علیہ کچھ لوگوں کے ساتھ دریائے دجلہ کے کنارے جا رہے تھے
ایک بوڑھے آدمی نے ڈاکٹر سے کہا کہ میری نگاہ کمزور ہوگئی ہے ،
کہتے ہیں : ایک شخص نے صابن کا کاروبار شروع کیا ، کچھ ہی عرصے میں اس کی پراڈکٹ مقبول ہوگئی ، گاہگوں کی ڈیمانڈ پوری کرنے کے لئے چھوٹی سی فیکٹری میں ڈبل شفٹ میں کام ہونے لگا۔
بنی اِسرائیل کا ایک شخص جو بہت گناہ گار تھا ایک مرتبہ بہت بڑے عابد (یعنی عبادت گزار) کے پاس سے گزرا جس کے سر پر بادَل سایہ کیا کرتے تھے۔