hazrat ali
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے

صحابی رسول امیر المؤمنین خلیفۃ المسلمین  مولا علی شیرخدا کی حیات پا ک کا تعارف

خلافت راشدہ کے چوتھے خلیفہ امیر المؤمنین حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم آفتاب صحابیت کے وہ درخشندہ ستارہ ہیں جن کی آب وتاب مطلع ولایت و خلافت پر ہمیشہ چمکتی دمکتی رہے گی۔آپ رضی اللّٰہ عنہ کی عظمت وشان ، مقام ومرتبہ ، علم وعمل، زہد و تقوی  ،فضل و کمال ،جود وسخا، شجاعت وبہادری ، حکمت ودانائی اور قضا وقدر کی گرانقدر صلاحیتیں اہل علم کے نزدیک تواترسے ثابت ہیں اور ان تمام محاسن وصفات کو زیب قرطاس کرنے کےلئے دفتر کے دفتر درکار ہیں۔چنانچہ اسلامی شخصیات میں حضرت علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم کو جوکمالات ِ علمی  وراثت نبی سے حاصل ہوئےاس کی ایک جھلک سورۃ الفاتحہ کی تفسیر کے بیان کےلئے ہی کافی ہے اور خلافت فاروق اعظم رضی اللّٰہ عنہ کی عدالتی ذمہ داری پر فائز چیف جسٹس کی حیثیت سے حضرت علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم کی معاملہ فہمی ودانشمندی  تاریخ کی صفحات میں روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔آپ رضی اللّٰہ عنہ وہ باکمال ہستی ہیں جن میں خدا تعالی کی عطا کردہ صلاحیتیں  تربیت نبی سے کمال عروج  پرایسی کو پہنچی کہ قیامت تک  علوم نبوت  کے حقیقی وارث بن کر روحانیت کے پیشوا بنیں اور ان کے بعد جس کو بھی فیض نبوت سے جو بھی حصہ ملا یا ملتا ہے وہ حضرت والا شان رضی اللّٰہ عنہ کی وساطت سے ہی ملا اور ملتا ہے۔

 بہادری و ہمت میں شہر ۂ آفا ق رکھنے والے خلیفہ چہارم ، امیر المؤمنین رضی اللّٰہ عنہ جن پر نگاہ رسالت کا فیض سرزمین خیبر پر  بجلی کی طرح چمکا اور پھر تاریخ نے آپ رضی اللّٰہ عنہ کی شجاعت و طاقت کو اپنے اندر ایسے سمویا کہ آج  تک خیبر پر آپ رضی اللّٰہ عنہ کی بہادری کا رعب ودبدبہ ہے۔حیدر کرار کی طاقت کا جوہر ہر میدان میں برق خاطف کی طرح چمکا اور ہر مد مقابل آپ کی جواں ہمتی کے آگے ٹہر ناسکا۔

اس جہان رنگ وبو میں  بہت باکما ل ہستیاں گزری ہیں  لیکن جس ہستی کو صحبت وسنگت نبی سے جو کمالات ارزاں ہوئے ہو صرف حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کی ذات والا ہے۔علمی مقام میں آپ کی جلالت علمی کا شہرہ صحابہ کے علاوہ امہات المؤمنین میں بھی مشہور تھاجس کی ایک جھلک بطور مثال الریاض النضرۃ کے حوالے سے پیش خدمت ہے’’ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے سامنے جب حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا:’’ علی سے زیادہ مسائل شرعیہ کا جاننے والا کوئی اور نہیں ہے ۔‘‘

 (الریاض النضرۃ، علی بن ابی طالب، ذکر اختصاصہ بانہ اعلم الناس  ، ۲ /۱۵۹، جزء۳، خلفائے راشدین ، ص ۲۹۲)

حبر الامۃ  حضرت سیدنا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما فرماتے ہیں ــ:’’ ہم نے جب بھی آپ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے کسی مسئلہ کو دریافت کیا تو ہمیشہ درست ہی جواب پایا ۔  ‘‘

(خلفائے راشدین ، ص ۲۹۲)

 سعید بن مسیب رضی اللّٰہ عنہ  حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ  کا علمی مقام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے صحابہ میں سوائے حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے کوئی یہ کہنے والا نہیں تھا کہ جو کچھ پوچھنا ہو مجھ سے پوچھ لو ۔‘‘  

(اسدالغابۃ، علی بن ابی طالب، علمہ رضی اللہ عنہ، ۴ /۱۰۹، خلفائے راشدین ، ص ۲۹۳)

سعید بن مسیب رضی اللّٰہ عنہ  ہی سے تاریخ الخلفاء کے حوالے سے ایک روایت ہےکہ ’’ جب حضرت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ  کی خدمت میں کوئی مشکل مقدمہ پیش ہوتا اور حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم موجود نہ ہوتے تو وہ اللہ تعالٰی کی پناہ مانگا کرتے تھے کہ مقدمہ کا فیصلہ کہیں غلط نہ ہوجائے ۔  

( ، ص۱۳۵ خلفائے راشدین ، ص ۲۹۳)

حضرت علی  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ  کے علمی جواہر پارے ، آپ کے ملفوظات، ارشادات، عدالتی فیصلے ، حکمت کی باتیں ، شریعت کے فیصلے، غمگسار دعائیہ جملے، تصوف کےرموز، نالہ ہائے نیم شبی کی کیفیات، دعائیں سب فیضان نبوت کا پرتو ہیں کیونکہ حضرت علی   رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ  کو بچپن سے ہی حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی  تربیت ملی، فیضان نبو ت کافیض بلاواسطہ آپ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ  کو ملا،پھر آپ کے نصیب کی یاوری کہ آپ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ  کو داماد رسول بننے کی بھی سعادت ملی ۔

یقینا حضرت علی  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ  کی عظمت وشان بیان کرنے سے قلم کاقاصر ہے کتب احادیث فضائل علی ،مقام علی، شان علی سے  بھری پڑی ہیں اور جو مقام ِعلی زبان رسالت سے بیان ہوا پھر مزید الفاظ کی گنجائش نہیں ۔لیکن بارگاہ علی  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ  میں گوبل ویب سائٹ دعوت اسلامی کے ذریعے محبتوں ، عقیدتوں کا نذرانہ  پیش کرنے کےلئے فقد ناقل روایت کی حیثیت سے تعارفی خدمات پیش کی جاتی ہے۔

محب اہل بیت،عاشق علی و اولادعلی امیراہلسنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری  کا کرامات علی بیان کرتا رسالہ’’کراماتِ شیر خدا‘‘ سے ایک اقتباس  حضرت علی  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ  کے تعارف کے حوالے سے پیش نظر کیا جاتا ہے۔

حضرتِ علی کا مُخْتَصر تعارُف

                 خلیفۂ چہارُم، جانَشینِ رسول، زَوجِ بَتُول حضرتِ سیِّدُنا علی بن ابی طالب  کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم کی کُنْیَت’’ابوالحَسَن‘‘ اور ’’ابوتُراب‘‘ہے۔ آپ رضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ شہَنْشاہِ ابرار، مکّے مدینے کے تاجْدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چچا ابوطالِب کے فرزند ِ اَرجمَند ہیں۔ عامُ الْفِیْل  کے30 سال بعد (جب حضور نبی ٔ اَکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی عُمْر شریف 30 برس تھی) 13 رَجَبُ الْمُرَجَّب بروزجُمعۃ المبارَک حضرتِ سیِّدُنا علیُّ المرتضیٰ، شیرِخدا کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم  خانۂ کعبہ شریف زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماًکے اَندر پیدا ہوئے۔ مولیٰ مشکل کُشاحضرتِ سیِّدُنا علیُّ المرتضیٰ کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم کی والِدَۂ ماجِدہ کا نام حضرتِ سیِّدَتُنا فاطِمہ بِنت اَسَد رضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ہے۔ آپ کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم  10سال کی عُمْر میں ہی دائرۂ اسلام میں داخِل ہو گئے تھے اورشہَنْشاہِ نُبُوَّت، تاجْدارِ رِسالت، شافِعِ اُمّت  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زیرِتربِیَّت رہے اور تادمِ حیات آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اِمداد ونُصرت اور دینِ اسلام کی حِمایَت میں مصروفِ عَمَل رہے۔ آپ کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم مُہاجِرین اَوّلینِ اورعَشَرَہ مُبَشَّرہ میں شامل ہونے اور دیگر خُصُوصی دَرَجات سے مُشرَّف ہونے کی بِناء پر بَہُت زیادہ مُمْتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ غزوۂ بَدر، غزوہ اُحُد ،غزوۂ خَنْدَق وغیرہ تمام اِسلامی جنگوں میں اپنی بے پناہ شُجاعت کے ساتھ شرکت فرماتے رہے اور کُفّار کے بڑے بڑے نامْوَر بہادُر آپ کَرَّمَ  اللہ تعالٰی وجہہ الکریم  کی تَلوارِ ذُوالْفِقار کے قاہرانہ وار سے واصِلِ نار ہوئے۔ امیرُ الْمُؤْمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی شہادت کے بعد اَنصار ومُہاجِرین نے دَستِ بابَرَکت پر بَیْعَت کر کے آپ کَرَّمَ  اللہ تعالٰی وجہہ الکریم کو امیرُ الْمُؤْمِنِین مُنْتَخَب کیا اور 4برس 8ماہ 9دن تک مسندِ خِلافت پر رونق افروز رہے ۔ 17 یا 19 رَمَضانُ المبارَک کو ایک خبیث خارِجی کے قاتِلانہ حملے سے شدید زخمی ہو گئے اور 21رَمَضان شریف یک شنبہ (اتوار) کی رات جامِ شہادت نوش فرما گئے ۔

(تاریخ الْخُلَفاء ص۱۳۲، اسد الغابۃ ج۴ ص۱۲۸، ۱۳۲، ازالۃ الخفاء ج۴ص۴۰۵، معرفۃ الصحابۃ ج۱ص۱۰۰وغیرہ ،کرامات شیر خدا، ص ۱۱ تا ۱۳)

شیر خدا، قوت یزداں مولائےکائنات  امیرالمؤمنین خلیفۃ المسلمین  ابو الحسن  حضرت علی  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ   کی حیات جمیلہ  کو کرامات شیر خدا رسالہ میں خوبصورت الفاظ کے پیراہن میں جس طرح بیان کیاگیا  یہ رسالہ اس بات کا متقاضی ہےکہ اس کو بغور پڑھا جائے ۔

امین امانات رسول

اخی رسول زوج بتول ، مولائے کل  حضرت امام  علی المرتضی  رضی اللّٰہ عنہ کے مناقب  میں وارد ایک روایت امین  امانات رسول  کی بھی ہے جس واقعہ کی منظر کشی فقیہِ ملت حضرت علامہ مولانا مفتی جلال الدین احمد امجدی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی نے سیرت صحابہ پر لکھی گئی کتاب ’’ خلفائے راشدین‘‘ میں کی ہے ۔وہاں اسے ایک اقتباس آپ کے مطالعہ کی تسکین کےلئے پیش کیا جاتاہے:’’ سرکار اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جب خدائے تعالٰی کے حکم کے مطابق مکہ معظمہ سے مدینہ طیبہ کی ہجرت کا ارادہ فرمایا تو حضرت علی  کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو بلا کر فرمایا کہ مجھے خدائے تعالٰی کی طرف سے ہجرت کا حکم ہوچکا ہے لہذا میں آج مدینہ روانہ ہوجاؤں گا ۔تم میرےبستر پرمیری سبز رنگ کی چادراوڑھ کرسو رہو ۔تمہیں کوئی تکلیف نہ ہوگی قریش کی ساری امانتیں جو میرے پاس رکھی ہوئی ہیں ان کے مالکوں کو دے کر تم بھی مدینے چلے آنا ۔

 یہ موقع بڑا ہی خوفناک اور نہایت خطرہ کا تھا ۔  حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو معلوم تھا کہ کفارِ قریش سونے کی حالت میں حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قتل کاارادہ کرچکے ہیں اسی لیے خدائے تعالٰی نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اپنے بستر پر سونے سے منع فرمادیا ہے ۔  آج حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا بستر قتل گاہ ہے لیکن اللہ کے محبوب دانائے خفایا وغیوب جناب احمد ِمجتبیٰ محمدمصطفی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اس فرمان سے کہ ’’ تمہیں کوئی تکلیف نہ ہوگی قریش کی امانتیں دے کر تم بھی مدینہ چلے آنا ۔ ‘‘ حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو پورا یقین تھا کہ دشمن مجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچاسکیں گے میں زندہ ‘‘رہوں گا اور مدینہ ضرور پہنچوں گالہذا سرکار اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا بستر جو آج بظاہر کانٹوں کا بچھونا تھا وہ حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے لیے پھولوں کی سیج بن گیا اس لیے کہ ان کا عقیدہ تھا کہ سورج مشرق کے بجائے مغرب سے نکل سکتا ہے مگر حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے فرمان کے خلاف نہیں ہوسکتا ۔  حضرت علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں کہ میں رات بھر آرام سے سویا صبح اُٹھ کر لوگوں کی امانتیں ان کے مالکوں کو سونپنا شروع کیں اور کسی سے نہیں چھپا ۔اسی طرح مکہ میں تین دن رہا پھر امانتوں کے ادا کرنے کے بعد میں بھی مدینہ کی طرف چل پڑا ۔  راستہ میں بھی کسی نے مجھ سے کوئی تعرض نہ کیا یہاں تک کہ میں قبا میں پہنچا ۔  حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حضرت کلثوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے مکان میں تشریف فرماتھے میں بھی وہی ٹھہر گیا ۔

 (اسد الغابۃ، علی بن ابی طالب ، ہجرتہ، ۴ /۱۰۴)

(الریاض النضرۃ، علی بن ابی طالب، الفصل الخامس فی ہجرتہ ، ۲ /۱۱۳، جزء۳، خلفائے راشدین ،ص ۲۵۷ تا ۲۵۸)

حضرت علی کی شان والا کے بیان میں دعوت اسلامی کی خدمات

مکتبۃ المدینہ کی شائع کردہ کتاب ’’خلفائے راشدین  ‘‘  خلفائے اسلام ، حضرت ابو بکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت علی  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ  کی سیرت پر ایک جامع کتاب ہے جوبہت ہی آسان الفاظ میں لکھی گئ ہے ۔ اس کتاب کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ سیرت صحابی رسول  کے ہر عنوان سے متعلق معلوماتی سوالا ت بھی دیئے گئے تاکہ پڑھنے والے کو سوالات کے ذریعے حاصل مطالعہ بھی یادہے۔

دعوت اسلامی ہر سال 13 رجب المرجب  کو حضرت علی  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ  کا یوم ولادت بڑے ہی خوبصورت انداز میں مناتی ہے اس دلکش انداز کاطریقہ سیرت علی  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ  کے ذریعے لوگوں کو دینی تعلیمات پر عمل کی دعوت دینا ہوتا ہےجو خود حضرت علی  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ  کے مقاصد زندگی میں شامل تھا۔ آپ نے کلمہ حق بلند کرنے کےلئے داد شجاعت دی، کفار سے برسرپیکار رہے، دعوت دین  کےلئے عملی جہاد کیا اور رسول اللہ کی صحبت کی برکت سے اسلامی شخصیات میں اعلی مقام حاصل کیا۔

حضرت علی  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ  کے کمالات ، کرامات محاسن و مناقب کےعلاوہ آپ کے علمی کام بھی کتابوں میں موجود ہیں ۔آپ کے ملفوظات وارشادات کو اہل قلم نے کتابوں میں قلمبند کیااور امت کی دینی اخلاقی تربیت کےلئے  لوگوں تک پھیلایا۔

حضرت علی  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ  کے علمی جواہر پاروں کو عام کرنے کےلئے دعوت اسلامی کے پلیٹ فارم سے ایک بہترین کاوش منظر عام پر آئی اور مستند کتابوں کے حوالوں کے ساتھ حضرت علی  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ  کے اعلی ترین اخلاقیات ودینیات پر مشتمل ارشادات کو   ایک رسالہ کی صورت میں    ’’ مولٰی علی کے 72 ارشادات ‘‘ کے نام سے شائع کرنے کی سعادت ملی۔

رسالہ ’’مولی علی کے 72 ارشادات ‘‘ میں ذکر کردہ حضرت علی  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ  کے اقوال زریں اہل ایمان کےلئے روشنی کے مینار ، ہدایت کے ستون ، زندگی کے اصول ، کامیابی کےنشان اور علم وعمل کے بہترین پھول ہیں جن سے استفادہ کر ناموجودہ وقت کی ضرورت ہے۔

عبادات وریاضت ، زہد وتقوی، خوف خداو عشق رسول، غریبوں کی حاجت روائی ، یتیموں کی دیکھ بھال، بیواؤں کا خیال، بچوں پر شفقت ، اپنوں سے محبت ، دشمنان دین سے شدت اس کے علاوہ امور خلافت کی ذمہ داریاں ، سرحدوں  کی حفاظت پھر انفرادی زندگی کے حالات وواقعات  سے متعلق علمی وتحقیقی لٹریچرز گلوبل ویب سائٹ پر موجود المدینہ لائبریریی میں دستیاب ہیں جو اہل تحقیق کو مطالعہ کی دعوت دیتے ہیں ۔

مزیں برآں عالم اسلام کی عظیم علمی وروحانی شخصیت امیر اہلسنت حضرت علامہ ومولانا محمد الیاس عطار قادری کے سیرت حضرت علی  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ  سے متعلق پرسوز بیانات، نگران شوری جناب حاجی عمران عطاری قادری کے خطابات اور شان علی  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ  پر مشتمل منقبتیں آڈیو و یڈیو کی صورت میں بھی موجود ہیں۔

نوعمری میں ہی اسلام کے  سایہ عاطفت  میں آکر حضور علیہ الصلاۃ و السلام کی پرورش میں رہ کر پورے عالم اسلام کے مولی کہلانے والے خلیفہ چہارم  امیر المؤمنین حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ کی یوم پیدائش 13 رجب المرجب  کے دن  آپ کی سیرت پر عمل کرنے کی نیت کریں اور اپنی زندگی اسوۂ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے مطابق گزاریں۔

 

  حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مختصر سیرتِ مبارکہ

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مختصر سیرتِ مبارکہ

  حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خوبصورت کرامت

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خوبصورت کرامت