meraj
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے

سفر اسراء ومعراج

اللہ جل مجده کی قدرت کی نشانیاں ، ملکوت السمٰوٰت  و الارض  کی سیر،عالم بالا  کے مشاہدات، فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰىمیں قرب کی  منزلین، فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰى کےکلمات میں حبیب اور محبوب میں راز ونیاز کی سرگوشیاں، تجلیات  ربانی کی بارشیں، مقام عبدیت کی رفعتیں، عطائے ذوالجلال والاکرام  کی نوازشیں، جنت الماوی کی  سیاحت، امامت کبری کا منصب، روز ازل انبیاء سے لئےہوئے عہد  کی پاسداری کا روح پرور منظر، لامکان کی وسعتوں   میں عبد کامل  کا تذکرہ جمیل، قدسیوں کی جھرمٹ میں معراج کے دولہا کی سواری، باراتیوں  کا اسقتبال ، مرحبا  مرحبا کی صدائیں، دیدار نبی سے سرشار ملائکہ کی  خوشیاں،انبیاء کے عقیدت بھرے سپاس نامے ،تعارفی کلمات، عطائے خداوندی پر تشکرآمیز خطابات، خاتم الانیباء کی امامت پر  کل انبیا ء ورسل  کے سرتسلیم  خم کا وجدانی ماحول ، مسجد اقصی کے درودیوار  کاوجد آفرین   منظر  ،شاہسوار براق کی شان والا درحقیقت  واقعہ اسراء ومعراج کے وہ عنوانات ہیں   جن سے  حضور علیہ الصلاۃ و التسلیم کے مقام قرب کا  اندازہ ہوتا ہے۔

سفر اسراءسے پہلے اگر حضور علیہ الصلاۃ و التسلم    کی مکی زندگی ملاحظہ کریں  کہ کس  طرح   روسائے قریش کی ریشہ دانیوں اور سازشوں نے  آقا کریم صلى الله عليه و ا ٰله وسلمکے خاطر عاطر کو  پریشان کررکھا تھا، پھر اپنوں کی جدائی کے غم نے مزید دل گرفتہ کردیا تھا، ایک غم و الم کی کیفیت  دل مصطفی پر چھائی ہوئی تھی۔حق  وسچ دیکھنے کے باوجود کفارو مشرکین مکہ  دعوت توحید کو ماننے کےلئے تیار نا تھے۔ظاہری ہمت ودادرسی دینے والے قریب کے ساتھی بھی داغ مفارقت دینے لگے ۔لیکن حضورعلیہ الصلاۃ والسلام کا طائر ہمت محو پرواز رہا ، جو آنسو طائف کی سرزمین پر ٹپکے تھے ،جو خون کےقطرے چمن اسلام کی آبیاری کےلئے جسم اطہر سے بہے تھے ان کی قبولیت کا وقت آپہنچا، قدرت کی بندہ نوازیوں کی نویدیں آنے شروع ہوگئیں، الطاف شاہانہ کے ظہور سے خاطر عاطر پر پڑے حزن وملان کے بادل چھٹنے لگے ، پھر وہ عروج  کی رات آئی جب نور  ذات پر صفات کے جو  پردے  تھےاٹھ  گئے ،بیکراں مسافتیں سمٹ گئیں اور عبد منیب اَوْ اَدْنٰىکے مقام رفیع پر فائز ہوا ۔

معراج النبی کے اس مبارک سفر کے  مضمون کو قرآن پاک میں دوجگہ  دو الگ الگ سورتوں میں بیان کیاگیاہےایک بنی اسرائیل پندرہویں پارے میں  اور دوسرا  سورہ نجم  ستائیسویں پارے میں۔ مسجد حرام سے مسجد اقصی تک کے سفر کو اسراء   کہتے ہیں اور مسجد اقصی سے  ساتوں آسمان،بیت المعمور، سدرۃ المنتہی ، لامکان   تک کے سفر کو معراج    کہتے ہیں۔

 

سورہ بنی اسرائیل کی روشنی میں سفر اسراء

  کعبہ کے بدر الدجی کعبہ کےپاس حطیم میں محواستراحت تھے کہ جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے ،قدم مبارک  کےپاس باادب کھڑے ہوکر خواب  نیند سے بیدار، پیغام خداوندی سے آگاہ کیا،دل پہلے ہی سے قرب وحضوری   میں پہنچ چکا تھا، حضور علیہ الصلاۃ والسلام بیدار ہوئے، زم زم کےکنوئیں کے پاس آپ  کو لاگیا ،سینہ اقدس کو  کھولاگیا،دل مصطفی میں ایمان وحکمت   سے لبریز طشت انڈیل کر سینہ  مبارک  ایسا درست کیاگیا کہ چاک کے نشان بھی نا تھے،حرم  سے باہر سوئے منزل کےلئے تشریف لائے تو سوار ی کےلئے ایک  جانور  براق سے موسوم  پیش کیاگیا جس کی حد رفتار حد نگاہ تک تھی جہاں تک نگاہ پہنچتی وہیں اس کاقدم پڑتا،معراج کا دولہا براق پر سوار جبرائیل رکاب  تھامے  مسجد حرام سے مسجد اقصی تشریف لائےجہاں گزشتہ انبیاء وررسل  پہلے سے ہی چشم براہ تھے ، انبیاء کی سواریاں جس حلقہ سے باندھی تھیں وہیں براق کو بھی باندھا گیا۔

حضور مسجد اقصی میں تشریف  لائے ،صف  باندھےانبیاء ورسل  کھڑے ہیں جبرائیل نے حضور علیہ الصلاۃ والسلام کو امامت کےلئے کہا، حضور آگے تشریف لائے اور سب نے حضور کی اقتداء میں نماز  عشق ومحبت ادا کی اور  روز ازل انبیاء کی اوراح  سے جو وعدہ ’’ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗ  ‘‘( تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا     )  لیاگیا تھا اس کی تکیمل ہوئی اورحضور  امامت کبر ی کے  منصب جلیلہ  عالیہ پر فائز ہوکر امام الانیباء کہلائے ا ور یوں چشم فلک نے  حضور کی  امامت کبر ی کے روح پرور منظر کا نظارہ کیا ۔

نمازِ اَقصٰی میں تھا یہی سِر،عیاں ہومعنیِ اول آخر

کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضرجوسلطنت آگے کر گئے تھے

دعوی قرآن

مسجد حرم سے مسجد اقصی تک   کے اس خوبصورت سفر کو  دعوی قرآن کی روشنی میں دیکھئے کہ خالق ارض وسما اپنے محبوب ذی شان کی عظمت ورفعت  بلندی مکان کو کس قدر جاذبیت اور ٹھوس دلائل سے مزین کرکے  بیان کررہا ہے۔

سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ(۱)

ترجمۂ کنزالایمان: پاکی ہے اسے جو راتوں  رات اپنے بندے کو لے گیا مسجد ِحرام سے مسجد ِاقصا تک جس کے گردا گرد ہم نے برکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عظیم نشانیاں  دکھائیں  بیشک وہ سنتا دیکھتا ہے۔

واقعہ معراج   حضور علیہ الصلاۃ و السلام کا وہ عظیم معجزہ ہے جس سے حضور کے مقام رفعت کا  پتا چلتا ہے۔چونکہ واقعہ معراج    انسانی عقل کو حیران کردینے والا واقعہ ہے اس مبارک سفر میں پیش ہونے والا ہر واقعہ بلاشبہہ عجیب اور حیران کردینے والا ہے اسیلئے  وہ لوگ جن کے دل میں نور ایمان  نا تھا انہوں نے اس واقعہ کو سن کو بہت واویلا مچایا اور کئی کمزور اور ضعیف الایمان   لوگوں  کے پاؤں سفر معراج کو سن کو ڈگمگاگئے لیکن جن کے دل نور ایمان سے منور تھے ،یقین کا چراغ ضوفشاں تھا انہوں نے بلاچوں چراں اور بغیر کسی تذبذب کے اس واقعہ کو ناصرف تسلیم کیا بلکہ حضور  کے ہر فرمان کی تصدیق کی۔

سورہ بنی اسرائیل  کے آغاز میں اللہ تعالی  نےاس سفر اسراء کو بیان کرنے سے پہلے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا کہ اس واقعہ کا دعویدار میرا محبوب نہیں  بلکہ یہ سیر   لا مکان  میں نے کروائی ہے اور اسیلئے اللہ تعالی نے اس سورت کا آغاز سبحان کے پاکیزہ کلمات کے ساتھ کیاتاکہ ذہن میں آنے والے اعتراض  سے پہلے سوچ لیا جائے  کہ اللہ تو ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہے اور اس کا کلام سچا ہے تو کسی کو کیا مجال ہوسکتی ہےکہ اس کی قدرت پر کوئی اعتراض کرے۔چنانچہ  جو لوگ اللہ جل مجدہ  کی قدرت وعظمت پر یقین کامل رکھتے ہیں ان کا ایمان ذات باری تعالی  پر غیر متزلزل ہے  اور رسول محتشم  ، شفیع امم  ، حامیٔ بیکساں ، رحمۃللعالمین  کے سچاہونے اور رسول برحق مانتے ہیں تو ان کو مزید اس  آیت کےبعد کسی دلیل  کی ضرورت نہیں۔ان کے لئے فرمان باری تعالی ہی کافی  ہے۔

سائنس دان اور ریاضی دان کےنزدیک اگر کائنات کے ایک دائرے قطر سے دوسرے دائرے قطر  تک  روشنی  یہ مسافت طے کرے تو اس کو تین ہزار ملین نوری سال  کا عرصہ درکار ہوگاجبکہ سائنس اور ریاضی کے ماہرین اپنے اس دعوی پر بھی مطمئن نہیں   اس لئے کہ ان کے سارے دعوے مفروضوں پر قائم ہوتے ہیں جبکہ  خالق ارض وسمانے   اس سفر کی مسافت کو طے کرنے لئے جس  لفظ کو  بیان کیا  وہ لَیْلًا ہے ۔ لَیْلًا پر دو زبر جس کو تنوین کہتے ہیں   سے اس بات کی طرف اشارہ ہےکہ  اللہ جو تما م قدرتوں کا مالک ہے اور ہر عیب و نقص سے مبرا و منزہ ہے اس نے اپنے بندے کو رات کو ایک  مختصر سے وقت میں بڑے اطمینان سے خاکدان گیتی سے فراز عرش    نہیں اس سے بھی آگے  تک سیر کروائی  اور سیر کے دوران اپنی قدرت کی تمام نشانیاں بھی دکھلائیں، ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰى کے  مقام پر قرب حضوری میں اپنے محبوب کو ٹھہراکر  فَاَوْحٰۤى اِلٰى عَبْدِهٖ مَاۤ اَوْحٰىکے ساتھ راز و نیاز کی باتیں بھی کیں ، پھر میرےمحبو ب کی سواری واپس  خاکدان ارضی ہوئی  اور سماں یہ تھا کہ رات کی تاریکی  ہر سو پھیلی ہوئی تھی سپیدۂ  سحر کا  نام ونشان بھی نا تھا۔

لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاسے معراج واسراء کی حکمت کو بیان کیاگیا  تاکہ    حضور کےلئے مکاشفات ، غیبی  خبریں اور   قدرت کی بے کراں  وسعتوں میں پنہاں   نشانیوں کو ظاہر کیا جائے    اور  میرا محبوب عین القین کے منصب پر فائز  ہوکر میری ذات کا اپنے سر کی آنکھوں سے  بےحجابانہ دیدار کرکے  قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ  کا  برملا اعلان  کرے تاکہ  سابقہ انبیاء ورسل کی دعوت توحید کی تصدیق بھی ہوجائے ۔

اور بِعَبْدِهٖ سے  نادانوں   کی عقل حقیقت ناشنا س   کو بتایاجارہا ہےکہ یہ واقعہ معراج  خواب  کا واقعہ نہیں  بلکہ جسم و روح کے ساتھ تھا۔

سفر اسراء  کے دولہا  کی شان علو مرتبت  سورۂ بنی اسرائیل کی  پہلی آیت کی روشنی میں پڑھنے کےلئے دورۂ حاضر کی بہترین  تفسیر  صرا ط الجنان   فی تفسیر القرآن کا مطالعہ   ضروری ہوگا ۔ یہاں مقصو د صرف سفر معراج     کا تذکرہ کرکے آپ کو مزید مطالعہ کی دعوت دینا ہے تاکہ آپ بھی سیرت مصطفی کے اس اہم باب کا مطالعہ  مستند تفسیر    صراط الجنان کی روشنی میں پڑھ لیں۔

 واقعہ  معراج:

معراج النبی   کا دوسرا سفر  مسجد اقصی سے لامکان کی وسعتوں میں چھپی  قدرت کی نشانیاں اور دیدار الٰہی    کی لذت سے سرشار ہونے کےلئے شروع ہوتاہے۔معراج کے دولہا کا مرکب  ہمایوں بلندی پرواز ہوا جبرائیل  رکاب تھامے فرشتوں کی بارات کے ساتھ دولہا  کی سواری  لئے آسماں  پرپہنچےجہاں پر پہلے ہی سے استقبال کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھی۔

وہاں     فلک پر یہاں     زمیں     میں     رَچی تھی شادی مچی تھی دُھومیں   

اُدھر سے اَنوار ہنستے آتے اِدھر سے نفحات اُٹھ رہے تھے

سفرمعراج کی خوبصورت منظر کشی  اور آسمان دنیا  میں سرورکشور رسالت کےاستقبال کی تیاری ، انبیاء سے ملاقاتیں، ملائکہ کی خوشی کا سماں ،کائنات کی تزئین وآرائش، جنت کی سج دھج،چاند سورج کا مچلنا ، نجموم وافلاک  کا جھومنا، حوروں کی زینت آرائیاں ، سلامی کے واسطے قدسیوں کی صف بندیاں    بیان کرتا وہ عشق و محبت میں ڈوبا اعلیحضرت کامنظوم کلام’’وہ سَروَرِ کِشورِ رِسالَت‘‘جس کے لفظ لفظ سے سفرمعراج   کا سماں  مشام جان کو معطر کررہا ہے۔ اس کلا م اعجاز کو پڑھیئے اور سفر معراج کی غرض وغایت جانیئے۔نیز سفر معراج سے متعلق  مزید معلومات کےلئے آپ کی توجہ فیضان  معراج نامی کتاب کی طرف مبذول کروانا ہے جس میں  واقعہ معراج کے دورا ن جتنے بھی مشاہدات ومکاشفات ہوئے ان کو بڑے ہی آسان انداز بیان کے ساتھ  بیان کیاگیا ہے۔

قرآن کریم  میں  سرور سروراں ، سید الانبیاء، امام الانبیاء کے خارق عادت (خلاف عادت کام ہے جو دعویٰ نبوت کرنے والے کے ہاتھ پر ظاہر ہو۔) معجزہ معراج کو جس خاص    اسلوب سے بیان کیاگیا  اس میں غور وخوض کے بعد ایک مسلم   جس کو عقل سلیم کی دولت ملی ہو اسے لیت ولعل  اور قیل و قال کے بغیر  ماننا پڑے گا کہ واقعہ معراج سے  متعلق جو کچھ قرآن وحدیث میں بیان کیاگیا ہے وہ سچ ہے ۔

اہل زمین  کی معراج کےلئے سفر معراج  کا آسمانی تحفہ:

رب ذوالجلال   کی بارگاہ میں شب اسرا  کےدولہا کی حاضری  اور راز ونیاز  کی باتیں    ،بلاحجاب  دیدار الہی کی لذتوں سے سرشار  جب واپسی کا پروانہ ملا تو اللہ نے اپنے محبوب کی امت  کی معراج کےلئے اپنے حبیب  کو  نماز کا  تحفہ پیش کیا ۔ یہ وہ تحفہ ہے جس کے بارے میں امام غزالی  فرماتے ہیں :’’ پس اے بندے! نماز تیری عبادت اور ایسا تحفہ ہے کہ جس کے ذریعے تجھے بادشاہوں کے بادشاہ(یعنی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ) کا قرب حاصل ہوتا ہے جیسا کہ وہ شخص جو بادشاہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے اسے غلام تحفہ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ یہ(نماز کا) تحفہ جو تُو بارگاہِ ربّ العزت میں پیش کرتا ہے ، بڑی پیشی (یعنی قیامت) کے دن تجھے لوٹا دیا جائے گااب تجھے اختیار ہے کہ اسے اچھی صورت میں پیش کر یا بری شکل میں ، اگر اچھی صورت میں پیش کرے گاتو تجھے ہی فائدہ ہوگا اور اگر بری صورت میں پیش کرے گاتو تیرا ہی نقصان ہوگا۔ ‘‘(احیاء العلوم مترجم،جلد 1 ص494)

شب اسراء  کی نماز   اور وظائف و اعمال:

شب معراج النبی کا شمار ان راتوں میں ہوتا ہے جن میں عموما بزرگان دین  رات بھر عبادت کرتے ہیں  اس نیت کے ساتھ کہ یہ رات اللہ کی بارگاہ میں  اللہ کےحبیب  کے قرب کی رات  ہے، انوار وتجلیات  کی رات، مشاہدات ومکاشفات  کی رات، امام الانبیاء کی  امامت کل کی رات ہے، امت محمدیہ علی صاحبھا الصلاۃ و السلام پر عطائے خداوندی کی رات ہے، اہل ایمان  کی معراج کی رات ہے۔اسیلئے اس رات  اللہ کے بندے  عبادت  کرتے ہیں، مختلف نیک اعمال بجا لاتے ہیں ، سفر معراج کے روحانی فیوض واثرات  سے مستفیض ہونےکےلئے ساری رات اللہ کےذکر میں گزار تے ہیں۔حدیث کی کتاب شعب الایمان  میں روایت موجود ہے جس  میں حضور نبی رحمت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس رات کو عبادت میں گزارنے اور دن کو روزہ رکھنے کی ترغیب دلائی۔چنانچہ

حضرت سیِّدُنا سلمان فارسیرَضِیَ اللہُ عَنْہ  سے روایت ہے کہ   نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ و اٰلِہٖ وَسَلَّمنےارشادفرمایا : رجَب میں ایک دن اور رات ہے جو اُس دن روزہ رکھے اور رات کو قیام(عبادت )کرے تو گویا اُس نےسوسال کےروزےرکھےاور وہ ستائیس رَجَب ہے۔

( شعب الایمان ، باب فی الصیام ۔ ۔ ۔ الخ ، 3 / 373 ، حدیث : 3811)

                                                حضرت سیِّدُنا انس رَضِیَ اللہُ عَنْہسے مروی ہے کہ رسول الله صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم  نے ارشاد فرمایا : رَجَب  میں ایک رات ہے کہ اس میں نیک عمل کرنے والے کیلئے 100برس کی نیکیوں کا ثواب لکھا جاتا ہے اور وہ رَجَب  کی ستائیسویں شَب ہے۔ جو اس میں بارہ رکعت اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتِحہ اورکوئی سی ایک سُورت اور ہر دو رکعت پر اَلتَّحِیّات پڑھے اور 12پوری ہونے پر سلام پھیرے ، اس کے بعد 100بارسُبْحٰنَ اللہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ وَلَآاِلٰہَ اِلَّااللہُ وَاللہُ اَکْبَر پڑھے ، 100بار اِستِغفار ، 100بار دُرُودشریف پڑھےاوراپنی دنیاوآخِرت سے  متعلق جس چیز کی چاہے دُعا مانگے اور صبح کو روزہ رکھے تواللہپاک اس کی سب دُعائیں قَبو ل فرمائے سوائے اُس دُعا کے جوگناہ کے لئے ہو۔

اس رات سے متعلق کچھ اعمال بھی کتابوں میں ذکر کئے گئے ہیں ان میں سے کچھ خاص مستندبزرگان دین  کے مخصوص اعمال   اس رات کی مناسبت سے دعوت اسلامی کی ویب سائٹ پر موجو د  بک سروس میں  ایک کتاب   اسلامی مہینوں کے فضائل سے متعلق بھی  ہے وہاں سے مخصوص اعمال  بھی اس رات سے متعلق مل سکتے ہیں ۔

دعوت اسلامی ہر سال  معراج النبی  کے موقع پر  بالعموم دنیا بھر  میں   قائم فیضان مدینہ میں اور بالخصوص عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ میں   معراج  کی شب ایک عظیم الشان اجتماع    بسلسلہ معراج النبی منعقد کرتی ہے اور یہ سلسلہ ان شاء  اللہ قیامت تک جاری رہے گا۔

مِعْراج کی  شب تو یاد رکھا پھر حشر ميں کیسے بھوليں گے

عطاؔر  اِسی  اُمّید  پہ  ہم  دِن  اپنے  گُزارے  جاتے  ہيں

 

  مسجد اقصٰی مقام معراج

مسجد اقصٰی مقام معراج

  واقعۂ معراج کی حکمت

واقعۂ معراج کی حکمت