Book Name:Ibrat Ke Namonay

ترجمہ: میں قبروں کے پاس آیا اور اُنہیں پکار کر کہا:کہاں ہیں وہ لوگ ،دنیا میں جن کی عزّت کی جاتی تھی اور وہ لوگ  جنہیں دُنیا میں حقیر(Substandard) سمجھا جاتا تھا؟اور کہاں ہیں وہ  بادشاہ جنہیں اپنی حکومت پر بہت بھروسا تھا؟کہاں ہیں وہ عزّت دار جو فخر کیا کرتے تھے؟

حضرت مالک بن دیناررَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:ایک قبر سے آواز آئی:وہ سب فنا ہو گئے اور فنا ہو کر نشانِ عبرت بن گئے،اب اُن کی خبر دینے والا بھی کوئی نہ رہا اور وہ اللہ پاک کی بارگاہ میں حاضِر ہو گئے۔اے گزرے ہوئے لوگوں کے بارے میں پوچھنے والے!کیا تجھے اِن گزر جانے والوں کے عِبرت ناک حالات و  واقعات نہیں پہنچے۔([1]) 

پہلوانوں کو پچھاڑا موت نے              کھیل کتنوں کا بگاڑا موت نے

ہاتھی جیسے بھی نہ چھوڑے موت نے     کیسے کیسے گھر اجاڑے موت نے

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!                                               صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

قبرستان میں حاضِری دیا کیجئے!

پیارے اسلامی بھائیو! غور فرمائیے! ہمارے اَسْلاف، بزرگانِ دین، اللہ پاک کے نیک بندے کیسے کیسے عِبْرت لیا کرتے تھے، یہ حضرات قبرستان جاتے، اپنی موت کو یاد کرتے اور اس سے سبق(Lesson) لیا کرتے تھے۔ کاش! ہم بھی عِبْرت لینے والے بنیں، قبرستان حاضِری دیا کریں، قبر میں پیش آنے والے معاملات کے متعلق غور و فِکْر کریں اور  اپنی موت کو یاد کیا کریں۔ امیر ِاہلسنت حضرت مولانا محمد الیاس  عطارقادری دَامَت بَرَکاتہمُ الْعَالِیَہہمیں سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں: ہمارے ہاں قبرِستان کی حاضِری عُموماً رسمی طور پر (Formality) ہوتی ہے ۔ قبرِستان جانا اچّھی بات ہے  لیکن اس سے عِبرت بھی حاصِل کی جائے اور اپنی


 

 



[1]... الروض الفائق،صفحہ:25 ملخصًا۔