Book Name:Ibrat Ke Namonay

گھر بنانا تھا، دِیوار بنا بیٹھے

پیارے اسلامی بھائیو! یہ دُنیا مقامِ عبرت ہے، یہاں جگہ جگہ عِبْرت کے نشان موجود ہیں، کہتے ہیں: جو عِبْرت لیتا نہیں ہے، اسے نشانِ عِبْرت بنا دیا جاتا ہے۔ اس لئے ہمیں چاہئے کہ یہاں دِل نہ لگائیں، عِبْرت لیں، نصیحت حاصِل کریں اور آخرت کی تیاری شروع کر دَیں۔ ایک شاعِر نے بڑی خوبصُورت بات کہی، لکھتا ہے:

اس جہانِ رنگ و بُو میں آ کر

گھر بنانا تھا، دِیوار بنا بیٹھے

مفہوم:گھر اسے کہتے ہیں: جہاں کوئی رہتا ہو اور دِیوار ایک رُکاوٹ ہوتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارا اس دُنیا میں آنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم اپنے دِل کو پاک کرتے، اس دِل کو محبّتِ اِلٰہی کا گھر بناتے مگر افسوس! ہم نے تو اپنے اور قُرْبِ اِلٰہی کے درمیان دِیوارَیں کھڑی کر لی ہیں، حِرْص، ہَوَس، دُنیا کی محبّت، دُنیا کی فِکْر، آخرت سے بےفِکْری، غفلت وغیرہ یہ سب دِیواریں ہیں، جو ہمیں قُرْبِ اِلٰہی سے، اللہ پاک کی محبّت سے روکتی ہیں۔

مقامِ پرورشِ آہ و نالہ ہے یہ چمن

نہ سیرِ  گل  کے  لئے  ہے  نہ  آشیاں  کے  لئے([1])

وضاحت: آہ و نالہ کا مطلب: عشق۔ یعنی ہم اس دُنیا میں سیر و تفریح کے لئے نہیں آئے، یہاں گھر،کوٹھیاں، بنگلے بنانے کے لئے نہیں آئے بلکہ یہ دُنیا مقامِ پرورشِ آہ و نالہ ہے یعنی ہم یہاں اس لئے ہیں تاکہ اپنے دِل میں اللہ پاک کی مَحبّت کو پروان چڑھائیں، دِن بہ دِن اس مَحبّت میں اِضافہ ہی کرتے چلے جائیں۔ اس کام کے لئے ہم اس دُنیا میں آئے ہیں۔


 

 



[1]...كلياتِ اقبال،بالِ جبریل، صفحہ:379 ملتقطًا۔