Book Name:Buray Guman Ke Nuqsanat
مطلب نہیں ہے کہ (اب )ہم ان کی بدگوئی کرنا یا عیب اُچھالنا شروع کردیں بلکہ ایسی صورت میں رضائے الٰہی کے لئے صرف دِل میں انہیں بُرا سمجھا جائے ۔([1])
بدگمانی کی دوسری صورت وہ ہے جو ناجائز اور گناہ ہے ، جیسے اللہ پاک کے ساتھ بُرا گُمان رکھنااور نیک مومِن کے ساتھ برا گُمان رکھنا ۔([2])
نوٹ: اللہ پاک سے بدگُمانی کامطلب یہ ہے کہ یہ گُمان رکھناکہ اللہ پاک مجھے رِزْق نہیں دے گا یا میری حِفاظت نہیں فرمائے گایا میری مدد نہیں کرے گا وغیرھا۔([3])
اسی بدگمانی سے بچنے کا قرآنِ مجید میں حکم دیا گیا ہے ۔چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ (پ26، الحجرات: 12)
ترجَمۂ کنز العرفان: اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہوجاتا ہے۔
اس آیت کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں ہے کہ مومن صالح کے ساتھ برا گمان ممنوع ہے، اسی طرح اس کا کوئی کلام سن کر فاسد (برے )معنیٰ مراد لینا باوجود یہ کہ اس کے دوسرے صحیح معنی موجود ہوں اور مسلمان کا حال ان کے موافق ہو، یہ بھی گمانِ بد میں داخل ہے ۔ ([4])