Buray Guman Ke Nuqsanat

Book Name:Buray Guman Ke Nuqsanat

(1) بدگمانی کب جائز ہوگی ؟

بعض صورتوں میں بدگمانی جائز ہوتی ہے مثلاً : جو اعلانیہ گناہِ کبیرہ کا ارتِکاب کرتا ہو اور فِسْق میں مشہور ہو تو اُس کے بارے میں بدگُمانی کرنا جائز ہے ۔([1]) 

اسی طرح اگر  کسی قرینے (یعنی انداز اور علامت) سےاُس کا ایسا ہونا ثابِت ہوتا ہو تو اَب بدگمانی  حرام نہیں۔ مثلاًکسی کو (شراب کی )بھٹی  میں آتا جاتا دیکھ کر اُس کے شراب خور ہونے کی بدگمانی پیدا ہوئی تو  اس میں بدگمانی کرنے والے کا قصور نہیں کیونکہ شراب خانے میں آنے جانے والے نے خود کو تہمت کی جگہ سے کیوں نہ روکا ۔([2]) یونہی جب نقصان میں مبتلا ہونے کا قَوِی اِحتِمال ہو۔مثلاً کسی کے ساتھ کاروباری شَرَاکَت کی یا خریدوفروخت کی یا کرائے پر کوئی چیز لی اور سامنے والے کی کسی مشکوک حَرَکت کی وجہ سے دِل میں بے اِختِیار بدگُمانی پیدا ہوئی  اور اس بدگُمانی کی بُنیاد پرایسی اِحتِیاطی تدابیر اِختِیار کیں جس سے سامنے والے کو کوئی نقصان نہ پہنچے تو ایسا کرنا جائز ہے کیونکہ  اس طرح کے معاملات میں اگر یہ شخص حسن ِ ظن ہی قائم کرتا رہ جائے تو نقصان میں مبتلا ہونے کا قَوِی اِمکان ہے ۔

    علامہ اِسماعیل حقی  رحمۃُ اللہ علیہ   تفسیر روح البیان میں لکھتے ہیں: بعض گُمان مُبَاح(جائز) ہیں جیسے امورِ معاش یعنی دُنیاوی معاملات اور معاش کی مُہِمَّات میں بدگُمانی کرنا ۔ بلکہ ان اُمور میں بدگُمانی  کرنے میں ہی سلامتی ہے ۔ ([3]) 

البتہ یہ یاد رہے کہ فاسقِ معلن اور اہلِ معصیت وغیرہ سے بدگُمانی جائز ہونے کا یہ


 

 



[1]... تفسیر قرطبی، پ26، الحجرات ، تحت الآیۃ: 12، 8/ 205،ملخصاً

[2]... فتاویٰ امجدیہ، 1/123 بتغیرٍقلیل

[3]... تفسیر روح البيان، پ26، الحجرات ، تحت الآيۃ:12، 9/84