Book Name:Husn e Zan Ki Barkatain
اِسرائیلی عبادت گزار اور گنہگار
بنی اِسرائیل کا ایک شخص جو بہت گنہگار تھا ،ایک مرتبہ بہت بڑے عابد (یعنی عبادت گزار) کے پاس سے گزرا،جس کے سر پر بادَل سایہ فگن ہوا کرتے تھے ۔ اُس گنہگار شخص نے اپنے دل میں سوچا :”میں بنی اِسرائیل کا انتہائی گنہگار اوریہ بہت بڑے عبادت گزار ہیں، اگرمیں ان کے پاس بیٹھوں تو اُمیدہے کہ اللہ پاک مجھ پر بھی رحم فرمادے۔“یہ سوچ کر وہ اُس عابدکے پاس بیٹھ گیا،عابد کو اُس کا بیٹھنا بَہُت ناگوار گزرا ، اُس نے دل میں کہا :” کہاں مجھ جیسا عبادت گزار اور کہاں یہ پرلے درجے کا گنہگار !یہ میرے پاس کیسے بیٹھ سکتا ہے! “چنانچِہ اُس نے بڑی حَقارت سے اُس شخص کو مخاطِب کیا اور کہا:”یہاں سے اُٹھ جاؤ!“اِس پر اللہ پاکنے اُس زمانے کے نبی عَلَیْہِ السَّلَام پر وحی بھیجی : ”ان دونوں سے فرمائیے کہ وہ اپنے عمل نئے سرے سے شروع کریں، میں نے اس گنہگار کو (اس کے حُسنِ ظن کے سبب) بخش دیا اور عبادت گزار کے عمل (اس کے تکبر کے باعث)ضائع کردیے۔“( احیاءعلوم الدین،۳ /۴۲۹)
صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
پیارے اسلامی بھائیو! یاد رہے!ہر وہ خیال جوکسی ظاہِری نشانی سے حاصل ہوتاہے،گُمان کہلاتا ہے،اسے ظَن بھی کہتے ہیں۔ مثلاً دُور سے دُھواں اُٹھتا دیکھ کر آگ کی مَوْجودگی کا خیال آنا، یہ ایک گُمان ہے۔(مفردات اِمام راغب،ص۵۳۹،ماخوذاً)گمان اچھا بھی ہوسکتا ہے اور برا بھی کسی کے بارے میں اچھے خیال کو حسنِ ظن اور برے خیال کو بد گمانی کہتے ہیں۔