Book Name:Neik Amaal
زیادہ روئے، دوکاندار کو اپنے کئے پر ندامت ہوئی، اُس نے معذرت کی اور آپ کی منہ مانگی قیمت پر کپڑا لینے کے لئے تیار ہوگیا ۔ آپ نے فرمایا : بات وہ نہیں جو تم سمجھ رہے ہو، یہ میرا پیشہ ہے اور میں نے اس کپڑے کو تیار کرتے ہوئے اس کی خوبصورتی اور مضبوطی میں اپنی تمام تر کوشش صرف کردی حتّٰی کہ اس میں کوئی عیب نظر نہ آیا پھر جب میں نے اسے عیوب کو جاننے والے ماہر پر پیش کیا تو اس نے اِس میں وہ عیب بتائے جن سے میں غافل تھاتو پھرکل جب رَبُّ الْعٰلَمِیْن کے سامنے ہمارے اعمال پیش کیے جائیں گے توان میں کس قدر عیب اور کوتاہیاں ظاہرہوں گی جن سے آج ہم بے خبر ہیں ۔ ([1])
پیارے اسلامی بھائیو! اپنے اعمال کا جائزہ اور فکرِ آخرت کی اہمیت قرآن واحادیث سے بالکل واضح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ والے اپنے اعمال اور اپنی آخرت کے بارے میں فکر مند رہا کرتے تھے۔ احادیث مبارکہ میں اعمال میں غور وفکر کرنے،ان کا محاسبہ کرنے کے فضائل موجود ہیں۔ آئیے ان میں سے چند سنئے :
محاسبہ اور فکرِ آخرت سے متعلق فرامینِ مصطفےٰ
(1)حضور صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا: فِکْرَۃُ سَاعَۃٍ خَیْرٌ مِّنْ عِبَادَۃِسِتِّیْنَ سَنَۃٍ یعنی آخرت کے بارے میں گھڑی بھر غور و فِکْر کرنا ساٹھ (60) سال کی عِبادت سے بہتر ہے۔([2])
(2)حضور صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا:سمجھ دار شخص وہ ہے جو اپنا محاسبہ کرے اور آخرت کی بہتری کے لئے نیکیاں کرے اور احمق وہ ہے جو اپنے نفس کی خواہشات کی