Book Name:Aarzi Thikana

کا تَعَلُّق نہیں ہے، محبّت کا تَعَلُّق نہیں ہے بلکہ ہم اس دُنیا میں ایک مُسَافِر(Passenger) کی طرح ہیں، جیسے آدمی سفر کرتا ہے، راستے میں اپنی ضروریات کے لئے کچھ دَیر رُکتا ہے، پِھر اپنی منزِل کی طرف بڑھ جاتا ہے، ہمارا بھی یہی حال ہے، ہماری منزل اللہ پاک کا قُرْب اور ہمیشہ کے لئے جنّت ہے۔ ہم عالَمِ اَرْواح سے چلے ہیں، ایک مُقرَّرہ مُدَّت(Fix Time) تک دُنیا میں رہیں گے، پِھر عالَمِ بَرْزَخْ میں چلے جائیں گے، پِھر وہاں سے محشر کی طرف سَفَر ہو گا، پِھر اِنْ شَآءَ اللہُ الْکَرِیْم! اپنی منزل یعنی جنّت میں پہنچ جائیں گے۔

جگہ جی لگانے کی دُنیا نہیں ہے                                                                 یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے

میرا دُنیا سے کیا تعلق...؟

صحابئ رسول حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں: ایک روز میں نے دیکھا؛ سرورِ ذیشان، مکی مَدَنی سُلطان صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم کھجورکی چٹائی پر آرام فرما ہیں اور آپ کے پہلو مبارک پر چٹائی کے نشان پڑ گئے ہیں، میں نے عَرْض کیا: یَا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم! ہمیں اجازت دیجئے! اس چٹائی پر کوئی بستر بچھا دیا کریں تاکہ آپ سکون سے آرام فرما ہو سکیں۔ یہ سُن کر رحمتِ دارَین، مالِکِ کونَیْن صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم نے فرمایا: میرا دُنیا سے کیا تَعَلُّق...؟ میری اور دُنیا کی مثال تو ایسی ہے جیسے کوئی مُسَافِر سخت گرمی کے دِن سَفَر کر رہا ہو، اس دوران وہ کسی درخت کے نیچے ٹھہرے ، کچھ دیر آرام کرے، پھر اپنی راہ چلا جائے۔([1])

ہے چٹائی کا بچھونا، کبھی خاک ہی پہ سونا

کبھی ہاتھ کا سرہانا مَدَنی مدینے والے!


 

 



[1]...الزہد والرقائق امام ابن المبارک، باب فی التواضع و کراہیۃ الکبر، صفحہ:54، حدیث:195۔