Book Name:Aarzi Thikana

ڈاکٹر اِقْبال نے کہا تھا:

بَر تَر اَز اَندیشۂ سُود و زیاں ہے زندگی

ہے  کبھی  جاں  تو  کبھی  تسلیمِ  جاں  ہے  زندگی([1])

مفہوم: زِندگی نفع و نقصان(Profit and Loss) کے اندیشوں سے بہت اُوپر کی چیز ہے، ہمیشہ زِندہ رہنے کا نام ہی زِندگی نہیں ہے بلکہ جب اللہ پاک کی رضا جان دینے میں ہو تو جان دے دینا زِندگی بن جاتا ہے۔

یہ اسلامی تہذیب کا حُسْن ہے کہ اسلامی تہذیب(Islamic Civilization) کی بنیاد بَقَا پر نہیں بلکہ اللہ پاک کی رضا پر رکھی گئی ہے۔ جب یہ بنیاد پُورے طَور پر مُعَاشرے میں رچ بس جائے تو امیر غریب کا فرق مٹ جاتا ہے، مُعَاشرے میں لِلّٰہِیَت، اُخُوَّت، محبّت، بھائی چارہ اور جاں نثاری پروان چڑھتی ہے۔

ایثار و قربانی کا عظیم واقعہ

جنگِ یرمُوْک کا موقع تھا، جنگ ختم ہو چکی تھی، اب صحابہ کِرام علیہمُ الرّضوان زخمیوں کی دیکھ بھال کر رہے تھے، حضرت حُذَیفہ رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں: میں اس وقت ہاتھ میں پانی لئے اپنے چچا زاد بھائی(یعنی Cousin) کو تلاش کر رہا تھا، ڈھونڈتے ڈھونڈتے آخر وہ مجھے مِل گیا، اس کو بہت زخم آئے تھے اور دَم لبوں پر تھا، میں اس کے قریب گیا اور کہا: بھائی! پانی پیو گے؟ اس نے کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا: ہاں! پیوں گا۔ میں اسے پانی دینے ہی والا تھا کہ کسی کے کراہنے کی آواز آئی، آخری سانسیں لینے والے میرے چچازاد بھائی نے


 

 



[1]...کلیاتِ اقبال، بانگ درا، صفحہ:287۔