Book Name:Faizan e Imam Hasan Basri

یہ بات ہم جانتے ہیں ، مانتے ہیں ، دِل سے اس پر یقین بھی رکھتے ہیں مگر ہمارا جینے کا انداز ایسا ہے کہ جیسے ہم نے ہمیشہ ہی اس دُنیا میں رہنا ہے۔آہ ! کاش... ! ! ہمیں فِکْرِ آخرت نصیب ہو جائے ، کاش ! ہم موت سے پہلے موت کی تیاری کرنے والے بن جائیں۔

کچھ نیکیاں کمالے جلد آخِرت بنالے       کوئی نہیں بھروسا اے بھائی ! زندَگی کا ( [1] )

لوگ غفلت میں ہیں

پارہ 17 ، سورۃ الانبیاءکی پہلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے :

اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِیْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَۚ(۱)   ( پارہ17 ، سورۂ انبیا : 1 )

ترجمہ کنزُ العِرفان : لوگوں کا حساب قریب آ گیا اور وہ غفلت میں منہ پھیرے ہوئے ہیں۔

سُلطان العارِفِیْن ، حضرت شیخ سلطان باہُو رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ  فرماتے ہیں : اے دُنیا کے طلب گار !  تُونے اللہ پاک کی محبت ، آخرت کی نعمتیں ، جنّت کی ہمیشہ رہنے والی خوشیوں بھری پُرسکون زِندگی کے بدلے دُنیا کی عارِضی ( Temporary ) ، فانی عیش و عِشْرت کو اپنا لیا ، تجھے یہ مشورہ اور تسلی ( Consolation )  کس نے دی کہ تُو نے ایسا نقصان  کا سودا کیا ، تیری یہ دُنیوی زِندگی کیا ہے ؟ یہ تو ایسے گزر جائے گی جیسے پانی میں پتا سا  ( ایک قسم کی مٹھائی جو چینی سے بنتی ہے )  گھل جاتا ہے ، پھر تجھے تنگ وتاریک قبر میں لِٹا دِیا جائے گا جہاں تُو کروٹ بھی نہیں بدل سکے گا ، پھر مالکِ حقیقی یعنی اللہ پاک تجھ سے ایسا حساب طلب کرے گا جس میں مَعْمُولی سی بھی کمی بیشی نہیں ہوگی تجھے زندگی کے ایک ایک لمحہ کا حساب دینا پڑے گا۔ ( [2] )  

اے عاشقانِ رسول ! غور فرمائیے ! وہ کیسا بے بسی ( Helplessness )  کا دِن ہو گا ، کیسی


 

 



[1]... وسائل بخشش ، صفحہ : 187۔

[2]... ابیاتِ باہُو ، صفحہ : 325 ملخصاً ۔