Book Name:Bilal e Habshi Ki 6 Hikayat
گا ، پہلے جب اذان پڑھتا تھا ، اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَّسُولُ اللہ کہتا تھا ، سامنے چہرۂ وَالضُّحٰی کی زیارت کیا کرتا تھا ، آج جب اذان پڑھوں گا ، دیدار سے محروم رہوں گا تو دِل برداشت نہیں کر پائے گا ، آہ ! آج مجھے اس فرمائش سے مُعَاف رکھو ! صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے اِصْرار کیا ، حضرت بِلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے انکار کیا ، اتنے میں پیارے آقا ، رسولِ خُدا صَلَی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ننھے نواسے امام حَسَن اور امام حُسَین رَضِی اللہ عَنْہُمَا تشریف لے آئے ، حضرت بِلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے شہزادوں کو سینے سے لگایا ، پیار کیا ، اب شہزادوں نے کہا : بلال ! ہمارے نانا جان ، رحمتِ دوجہان صَلَی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو جو اذان سُنایا کرتے تھے ، آج وہی اذان پھر سُنا دو ! بھلا ان شہزادوں کی بات کیسے ٹالی جا سکتی تھی۔ حضرت بِلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے شہزادوں کے حکم پر سَر جھکا دیا ، اذان دینے کی جگہ تشریف لائے ، کانوں پر ہاتھ رکھے اور پُر سَوْز آواز میں پڑھا : اللہ اَکْبَر ، اللہ اَکْبَر۔
اذان کی یہ پُر سَوْز آواز مدینۂ پاک میں گونج گئی ، سرزمینِ مدینہ پر ایک لرزہ طاری ہوا ، کہرام مچ گیا ، لوگوں کی چیخیں بلند ہو گئیں ، سرکارِ عالی وقار ، مکی مدنی تاجدار صَلَی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی یاد سے دِل بے تاب ہو گئے ، ننھے بچے اپنی ماؤں سے لپٹ کر پوچھتے تھے : امی جان ! حضرت بِلال تو آگئے ، ہمارے آقا صَلَی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کب تشریف لائیں گے؟
حضرت بِلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اذان پڑھ رہے تھے ، مدینۂ پاک میں قیامت کا منظر تھا ، جب حضرت بِلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے پڑھا : اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللہ۔ نگاہ اُٹھی ، منبرِ نُور پر پڑی ، آہ ! منبر خالی تھا ، حضرت بِلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ یادِ مصطفےٰ سے تڑپ گئے ، دِل بےقابُو ہو