Book Name:Bilal Habshi Ki 8 Hikayaat

(8) : حضرت بِلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کی ایک ایمان افروز اذان

جب اللہ پاک کے آخری نبی ، رسولِ ہاشِمی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے دُنیا سے ظاہِری پردہ فرمایا ، صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان پر گویا قیامت ٹوٹ گئی تھی ، صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان غم سے نڈھال ہو گئے تھے ، حضرت بِلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کو بھی وِصَالِ مصطفےٰ کا بہت صدمہ ہوا۔

حضرت بِلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ تو یُوں بھی مُؤذِّنِ رسول ہیں ، مؤذِّن اور امام کا آپس میں جُدا قسم کا ہی تعلق ہوتا ہے ، حضرت بِلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ رسولِ اکرم ، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کی خِدْمت میں رہا کرتے تھے ، اب جب محبوب آقا ، پیارے مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے دُنیا سے ظاہری پردہ فرمایا ، حضرت بِلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کے لئے جینا محال ہو گیا ، وہ گلیاں جہاں حُضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  چلا کرتے ، اُن گلیوں سے گزرتے ہوئے حضرت بِلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کا کلیجہ منہ کو آتا ہے ، جب حُضُور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  مسکراتے تو مدینۂ پاک کے در و دِیوار پر نُوْر کی شُعَائیں پڑا کرتی تھیں ، اب ان دیواروں کو دیکھ دیکھ کر حضرت بِلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کو محبوب آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کی یاد ستاتی ہے۔

گلیاں سُنْجِیَاں دِسَّن مینوں ، وَیْڑا کھاوَن آوے      غُلام فریدا! اوتھے کی وَسْنا جتھے ماہِی نظر نہ آوے

وضاحت : گلیاں سُونی سُونی دکھائی دیتی ہیں ، گھر کھانے کو آتا ہے یعنی گھر میں بھی دِل نہیں لگتا ، اے غُلام فرید! وہاں کیا جینا جہاں محبوب ہی نظر نہ آئے۔

              اب مدینۂ پاک کی ان گلیوں میں زِندگی گزارنا دُشوار تھا ، چنانچہ حضرت بِلال رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ مُلْکِ شام تشریف لے گئے مگر آہ! حُضُور اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  تو یہاں بھی نہیں ہیں ، دیدارِ حبیب کے جام تو یہاں بھی نہیں ملتے ، یادِ مصطفےٰ تو یہاں بھی تڑپاتی ہے۔