Book Name:Yadgari-e-Ummat Per Lakhon Salaam

حدیثِ پاک کے تَحت فرماتے ہیں :مِہمان کا اِحترام یہ ہے کہ اس سے خَندہ پیشانی سے ملے اس کے لئے کھانے اور دوسری خدمات کا اِنتِظام کرے حتَّی الاِمکان اپنے  ہاتھ سے اس کی خدمت کرے۔([1]) ارشاد فرمایا:جب کوئی مِہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنارزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحِبِ خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔([2])٭جب آپ کسی کے پاس بطورِ مہمان جائیں تو مُناسب ہے کہ اچّھی اچّھی نیّتوں کے ساتھ حسبِ حیثیت میزبان یا اس کے بچّوں کے لئے تحفے لیتی جائیں ٭ حضرتِ علّامہ مولانامفتی محمدامجدعلی اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ فرماتےہیں:مہمان کو چار باتیں ضَروری ہیں: (1) جہاں بٹھایاجائےوہیں بیٹھے (2)جو کچھ اس کےسامنےپیش کیاجائےاس پرخوش ہو،(3) بِغیر اجازتِ صاحبِ خانہ(یعنی میزبان سے اجازت لئے بغیر)وہاں سے نہ اٹھے اور (4)جب وہاں سے جائے تو اس کے لئے دُعا کرے۔([3])٭گھر یا کھانے  وغیرہ کے مُعامَلات میں کسی قسم کی تنقید کرے نہ ہی جھوٹی تعریف۔میزبان بھی مہمان کو جھوٹ کے خطرے میں ڈالنے والے سُوالات نہ کرے مثلاً کہنا ہمارا کھانا کیسا تھا؟آپ کو پسند آیا یا نہیں؟ایسے موقع پر اگر نہ پسند ہونے کے باوُجُود مِہمان مُرَوَّت میں کھانے کی جھوٹی تعریف کرے تو گناہ ہوگا،اِس طرح  کا سُوال بھی نہ کرے کہ ’’آپ نے پیٹ بھر کر کھایا یا نہیں؟‘‘ کہ یہاں بھی جواباً جھوٹ کا اندیشہ ہے کہ عادتِ کم خوری یا پرہیزی یا کسی بھی مجبوری کے تحت کم کھانے کے باوُجُود اِصرار و تکرار سے بچنے کیلئے مِہمان کو کہنا پڑ جائے کہ ’’میں نے خوب ڈٹ کر کھایاہے‘‘میزبان کو چاہئے کہ مہمان سے وقتاً فوقتاً کہے کہ ’’اور کھاؤ‘‘ مگر اس پر اِصرار نہ کرے کہ کہیں


 

 



[1] مرآۃ المناجیح،۶/۵۲

[2]کنز العمال،کتاب الضیافۃ،باب الترغیب فی الضیافۃ، جزء:۹،۵/۱۰۷،حدیث:۲۵۸۳۱

[3] عالمگیری،کتاب الکراھیۃ،باب الھدایا والضیافات، ۵/۳۴۴