Book Name:Baap Jannat Ka Darmiyani Darwaza He

بنایا ہے۔اللہ پاک نے اپنی رضا و فرمانبرداری کو باپ کی رضا و فرمانبرداری پر موقوف فرمادیا ہے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہم اللہ پاک  اور رسولِ کریم صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے فرامین پر لَبَّیْک  کہتی ہوئی دل و جان کے ساتھ ماں باپ کی خدمت کرکے ان سے دعائیں لیتیں،ماں باپ کے حقوق کو پورا کرتیں،ماں باپ کے ہر جائز حکم پر عمل کرتیں،ماں باپ کی پکار پر لَبَّیْک کہتی ہوئی ان  کی بارگاہ میں دوڑی دوڑی چلی آتیں،ماں باپ کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر مقدّم رکھتیں،ماں باپ کی نافرمانی سے اپنے آپ کو بچاتیں،مشکل حالات،بیماری اور بڑھاپے میں اُن کا سہارا بنتیں،الغرض ہر طرح سےماں باپ کو راضی رکھنے کی کوشش کرتی مگرافسوس!صد ہزارا فسوس!عِلْمِ دِین سے دُوری کے باعث آج باپ کا نام مظلوم ترین لوگوں کی فہرست میں شامل ہوچکا ہے، اب توبیٹیاں بھی عموماً باپ کا خیال نہیں کرتیں ،افسوس! بدقسمتی سے باپ کے ساتھ بدسُلوکی کے واقعات میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے، پہلے کے دور میں بچے  ڈرتے تھے کہ کہیں باپ ناراض نہ ہوجائے مگر اب حال یہ ہے کہ باپ ڈرتا ہے کہ کہیں بچے ناراض نہ ہوجائیں، ایک اکیلا باپ ہنسی خوشی5بچوں کو تو پال لیتا ہے مگر5 بچے ایک باپ کوسنبھال  نہیں پاتے،باپ نصیحت کردے تو  جھڑک کر اس کی بات کو سُنی اَنْ سُنی کردیا جاتا ہے، باپ اولاد کی بہتری کے لئے کچھ سخت کلمات کہہ دے توپیشانی پر بل آجاتے ہیں اور نادان اولاد زبان چلاتی نظر آتی ہے، باپ جب تک کمانے کی مشین بنا رہے تو بہت اچھا لگتا ہے لیکن اگر بیمار ہوجائے،کام کاج کے لائق نہ رہے،اولاد کے مزاج کے خلاف کوئی فیصلہ کر دے،اولادکو کسی نقصان پہنچانے والے کام سے منع کر دے،ایسی صورت میں بھی اولاد کی سمجھ میں نہیں آتا،باپ خرچہ نہ دے پائے یا بڑھا پے کو پہنچ جائےتو اولاد کے نزدیک اس کی اَہَمِّیَّت کسی بیکار چیز سے کم نہیں رہ جاتی، بچوں کی اَمّی کے انتقال کے بعد عُموماً باپکی دنیا بے رونق سی ہوجاتی ہے،اسے تنہائیاں چُبھتی ہیں،ایسے میں اسے اولاد کی ہمدردی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے مگر اولاداپنے آپ میں کچھ ایسی مگن ہوتی ہے