Book Name:Lalach Ka Anjaam

لالچ نے  ہر ایک کو اپنا شیدائی بنارکھا ہے۔لوگ پیسے دے کر بازاری چیزوں اورکھانوں کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی”بیماریاں“بھی خریدنے میں مصروف ہیں،ہر طرف کھانے پینے کی چیزوں کی خریداری کی دُھوم دھام ہے، فُوڈ کلچر کا دَور دَورہ ہے،ایک ایک محلّے میں کئی کئی ہوٹل، ریستوران اور فاسٹ فوڈ کی دکانیں کھلی ہوئی ہیں،ہر طرف کباب سَموسے،رول،حَلوہ پُوری،تِلّی،کلیجی،بَٹ،فِش فَرائی،فِنگر چِپْس(Finger Chips)،فِنگر فِش،دَہی بَھلّے اور آلو چھولے کے اسٹال نظر آرہے ہیں، چاروں طرف بِریانی،پلاؤ،نہاری،پائے،سَجّی،بَرگَر،پزّے،پراٹھے،سیخ کباب،بروسْٹ،چِکن تِکّوں اور باربِی کیو کی خوشبوئیں پھیلی ہوئی ہیں،چائے،کافی،آئِسکریم،رَبڑی،دُودھ دُلاری،لَبِ شِیریں، لَسّی،فُروٹ چاٹ اور کولڈرنکس کی دکانوں کی بہاریں ہیں۔ کئی لوگ صرف نَفْس کی لذّت کی خاطر کھانے پینے کی چیزوں پر مکھیوں کی طرح بھنبھنارہے ہوتےہیں،جو ہاتھ میں آیا پھانک رہے ہیں، جو مِلاہڑپ کر رہے ہیں۔عُموماً شادی بیاہ اوروَلیمے وغیرہ کی تقریبات میں اِس طرح کے نظارے عام  ہوتے ہیں۔کھانا کھلتے ہی کھانے پینے کے لالچ میںمُبْتَلا لوگ اِس انداز سے کھانے پر ٹُوٹ پڑتے  ہیں جیسے بِپھرے ہوئے چیر پھاڑ کرنے والے جانوراپنے شِکار پر حملہ کرتے ہیں۔اِس دَوران ہاتھ دھوناتو دُور کی بات ہے،بِسْمِ اللہ شریف اور کھانے کی دُعا بھی اگر کوئی پڑھ لے تَب بھی  بہت بڑی بات ہے۔ایسوں کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ شاید یہ اُن کی زندگی کا آخری کھانا ہے،اِس کے بعد اُنہیں عُمْر بھر کبھی ایسا عمدہ و لذیذ کھانا نصیب ہی نہیں ہوسکے گا۔چونکہ لالچی  انسان پر کھاناخَتْم ہوجانے یا کم پڑجانے کا خَوف غالِب رہتا ہے،لہٰذا وہ اپنی پلیٹ کو ضرورت سے زیادہ کھانے سے بھر لیتا،بہت سا کھانا ضائع کرتا،اچھی طرح چبائے بغیر  ہی نگل جاتا اور بعد میں  ڈاکٹروں اور حکیموں کے چکر لگاتا ہے۔آہ!کھانے کی لالچ اِس قدر غالِب آچکی ہے کہ نہ دُنیوی نقصان کی فِکْر ہوتی ہے،نہ نماز،روزوں کی ادائیگی کا ہوش،نہ نیک کاموں میں خَرْچ کرنے کا ذِہْن،نہ