Book Name:Shuhada-e-Ohud ki Qurbaniyan

بات دل میں بٹھانا مقصود ہے کہ جس طرح قرض دینے والا اطمینان رکھتا ہے کہ اس کا مال ضائع نہیں ہوتا اوروہ اس کی واپسی کا حق دار ہے ایسا ہی راہِ خدا میں خرچ کرنے والے کو اطمینان رکھنا چاہیے کہ وہ اس خرچ کرنے کا بدلہ یقینا پائے گا اوروہ بھی معمولی نہیں بلکہ کئی گنا بڑھا کر پائے گا ۔ سات سو گنا بھی ہوسکتا ہے اور اس سے لاکھوں گنا زائد بھی۔(صراط الجنان،۱/۳۶۵)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                             صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمّد

پیاری پیاری اسلامی بہنو! سُنا آپ نے!شہیدِ اُحدحضرتِ سَیِّدُنا ابو دَحْدَاح انصاری رَضِیَ اللہُ عَنْہُ راہِ خدا میں خرچ کے معاملے میں کس قدر زبردست مَدَنی ذہن کے مالک تھے،ذرا سوچئے!کسی کے پاس ایک ایسا خوبصورت باغ موجود ہو جس میں عُمدہ قسم کی کھجوروں کے600درخت لگے ہوں،تو کس کا دل چاہے گا اس باغ کو اپنی ملکیت سے خارج کرکے کسی کو تحفے میں دے دے یا پورا باغ ہی راہِ خدا میں پیش کردے مگر قربان جائیے!شہیدِ اُحد حضرتِ سَیِّدُنا ابودَحْدَاح انصاری رَضِیَ اللہُ عَنْہُ پر!جب آ پ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے سُنا کہ ربِّ کائنات کو یہ بات پسند ہے کہ اس کے بندے اس کی راہ میں خرچ کریں تو آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نے دل کھول کر راہ خدا میں خرچ کیا،جبکہ ہمارا معاملہ اس کے برعکس ہے۔افسوس!ہماری سوچ یہ بن چکی ہےکہ اگر میں نے راہِ خدا میں خرچ کیا تو میرا گزارا کیسے ہوگا؟میں کہاں سے کھاؤں گی ؟میرے  بچے بھوکے رہ جائیں گے، میرا مال کم پڑجائے گا،مجھے تو ذاتی گھربھی بنواناہے، مجھے تو بچوں بچیوں کی شادیاں بھی کروانی ہیں،مجھے توفلاں فلاں چیز کے لئے رقم بھی  جمع کرنی ہے،میری تو فلاں فلاں مجبوریاں بھی ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ہمارا  تو اس بات پر پورا پورا بھروسا ہونا چاہیے  کہ راہِ خدا میں مال خرچ کرنے سے کم نہیں ہوتا بلکہ مزید بڑھ جاتا ہے،ہمیں ربِّ کریم کی رضا طلب کرنی چاہیے، ہمیں  ثوابِ آخرت کی حرص رکھنی چاہیے،ہمیں قناعت کی عُمدہ دولت سے مالا مال ہونا چاہیے، ہمارا  دل  دنیا اور مالِ دنیا کی مَحَبَّتو لالچ سے