Book Name:Zindgi Ka Maqsad

سے نہیں لگاتا۔

اسی طرح پاؤں میں جوتے پہنے جاتے ہیں، یہ جوتے پیروں کی زینت تب تک بنے رہتے ہیں جب تک وہ ہمارے لیے آرام دہ ثابت ہوتے ہیں،جوتے اس وقت تک استعمال میں رہتے ہیں جب تک وہ ہمارے پیروں کو کیچڑ، دُھول مٹی،کنکر وغیرہ سے محفوظ رکھتے ہیں، پھر ایک وقت آتا ہے کہ جب جُوتے یا  چپل پُرانے ہوجاتے ہیں یا ٹُوٹ جاتے ہیں تو ان  کو پیروں سے الگ کر دیا جاتا ہے، اسی طرح ایک بہت طویل فہرست ہے۔ ہم زندگی کی مختلف چیزوں کو دیکھتے چلے جائیں، ہر چیز جب تک اپنےمقصد پر قائم رہتی ہے ، بندہ اس سے فائدہ اٹھاتا رہتا ہے جیسے ہی مقصد ختم ہوتا ہے اس چیز کو بھی چھوڑ دیا جاتا ہے۔

کبھی ہم بھی غور کریں! ہمیں کیوں بنایا گیا ہے؟ ہم بھی تو اللہ پاک کی مخلوق ہیں،  ہمیں اشرفُ المخلوقات قرار دیا گیا ہے، جب ساری مخلوق کو بنانے کا مقصد ہے تو حضرت انسان کو بنانے کا کیا مقصد ہے؟کیا اس حسین و جمیل، عقل مند و شعور یافتہ انسان کو بے مقصد پیدا کیا گیا ہے؟ نہیں نہیں! اس انسان کو بنانے کا بھی کوئی مقصد ہے۔ چنانچہ پارہ18سورۃُ المُؤمِنُون آیت نمبر115میں ارشاد ہوتا ہے:

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ(۱۱۵) (پ:۱۸،المؤمنون:۱۱۵)                                              

ترجَمَۂ کنزُالایمان:تو کیا یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا اور تمہیں ہماری طرف پھرنا نہیں

      میرے پیارے اسلامی بھائیو! گویا ہمیں جھنجھوڑا جا رہا ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ کوئی وجہ ہے جس کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے، اسی مقصدِ تخلیق  (Purpose of  Creation)کو پارہ 29، سُورۃُ الملک آیت 2 میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: