Book Name:Aala Hazrat Ka Ishq-e-Rasool

داداجان مولانا رضا علی خان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہہیں۔([1])اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کا پیدائشی نام ”محمد“ہے،آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی والِدہ ماجِدہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہا مَحَبَّت میں ”اَمَّن میاں“فرمایا کرتی تھیں ، والدماجِد رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اور دوسرے رشتے دار”احمد میاں“کے نام سے پُکارا کرتے تھے ،آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے داداجان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کا نام ”احمد رضا“ رکھا، آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کاتاریخی نام اَلْمُخْتَارہے  اور اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ خُود اپنے نام سے پہلے”عبدُالمصطفٰی “لکھا کرتے تھے۔([2])جس سے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے عِشْقِِ رسول کا اچھی طرح اندازہ لگایا جاسکتا ہے،چُنانچہ اپنے نعتیہ دیوان”حدائق ِ بخشش“ میں فرماتے ہیں:

خَوف نہ رکھ  رضا ؔؔؔؔؔ  ذرا، تُو تو ہے ”عبدِ مُصْطَفٰی“

 

تیرے لئے اَمان ہے،تیرے لئے اَمان ہے

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                   صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی سیرت،آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے فتاویٰ،ملفوظات اور آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی نعتیہ شاعری کو پڑھ یا سُن کر  ہر سمجھدار یہ بات اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ عِشْقِ رسول آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی نَس نَس میں سَمایا ہوا تھا۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے  عُمْر بھر،محبوبِِ خدا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعریف و تَوْصِیْف بیان کی،حضورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی ذاتِ اقدس پر اِعْتراضات کرنے والوں کو منہ توڑ جوابات دیئے اور قرآنِ پاک کے ترجمےمیں بھی شانِ رسالت کا خاص خیال رکھا۔یوں سمجھئے کہ عِشْقِ مُصْطَفٰے کی  شمع لوگوں کے دل میں روشن کرنا،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکا بُنیادی مَقْصَد تھا۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے نَعْتِیہ دیوان ”حدائقِ بخشش “کا ہر ہر شعر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے عِشْقِ رسول کو ظاہرکرتا نظر آتا ہے۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ


 

 



[1]   فاضل بریلوی علمائے حجاز کی نظر میں،ص۶۷ملخصاً

[2]   فیضانِ اعلیٰ حضرت، ص۷۷ملخصاً