Fazilat Ka Maiyar Taqwa

Book Name:Fazilat Ka Maiyar Taqwa

سارا دن رزقِ حلال کمانے میں مشغول رہتا ہوں اور حرام مال سے بچتا ہوں پھراللہ کریم مجھے سارے دن میں جتنا رزق عطا فرماتا ہے،میں اس میں سے آدھا اس کی راہ میں صدقہ کردیتا ہوں اورآدھا اپنے اَہل وعیال پرخرچ کرتا ہوں۔دوسرا عمل یہ ہے کہ میں کثرت سے روزے رکھتا ہوں،اس کے علاوہ کوئی اور چیز میرے اندر ایسی نہیں، جوباعثِ فضیلت ہو۔یہ سُن کر عابد(یعنی عبادت گزار)اس نیک موچی کے پاس سے چلا گیا اور دوبارہ عبادت میں مشغول ہوگیا۔کچھ عرصے بعد پھر اسے خواب میں کہا گیا:اس موچی سے پُوچھو کہ کس چیز کے خوف نے تمہارا چہرہ زَرْد(یعنی پیلا)کر دیا ہے؟چنانچہ وہ عابد(یعنی عبادت گزار) دو بارہ موچی کے پاس آیااور اس سے پُوچھا: تمہارا چہرہ زَرْد(یعنی پیلا) کیوں ہے؟آخر تمہیں کس چیز کا خوف ہے؟ موچی نے جواب دیا:جب بھی میں کسی شخص کو دیکھتا ہوں تو مجھے یہ گُمان ہوتا ہے کہ یہ شخص مجھ سے اچھا ہے،یہ جنّتی ہے اور میں جہنّم کے لائق ہوں، میں اپنے آپ کو سب سے حقیر جانتا ہوں اور اپنے آپ کو سب سے زیادہ گُناہ گار تصور کرتا ہوں اور مجھے ہر وقت جہنَّم کا خوف کھائے جارہا ہے۔بس یہی وجہ ہے کہ میرا چہرہ زَرْد(یعنی پیلا) ہوگیا ہے۔وہ عابد(یعنی عبادت گزار)واپس اپنے عبادت خانے میں چلاگیا ۔حضرت سَیِّدُنا خلد بن اَیُّوبرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:اس موچی کو اس عبادت گُزار شخص پر اسی لئے فضیلت دی گئی کہ وہ دو سروں کے مُقابلے میں اپنے آپ کو حقیراوراپنے علاوہ سب کو جنّتی سمجھتا تھا ۔(عیون الحکایات،ص۱۰۳)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                   صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آپ نےسنا کہ جو خوش نصیب مسلمان دُنیا کی رنگینیوں سے مُنہ موڑ کر،گناہوں سےتعلق ختم کرکے صرف رِضائے الٰہی کے لئے  عبادت و ریاضت اور تقویٰ و پرہیزگاری کو اپنا معمول بنالیتا ہے،عاجزی کرتے ہوئے خود کو حقیر اوردوسروں کوبہتر تصور کرتا ہے،نفل روزے اورصدقہ و خیرات کو اپنا معمول بنالیتا ہے،صرف رزقِ حلال ہی کماتا اورعبادات کی کثرت کے باوجود اپنا عمل ظاہر کرنے سےاپنےآپ کوبچاتا ہے،خود کو سب سے بڑا گناہ گار تصوّر کرتا ہے،جہنم کا خوف اور خوفِ خدا اس پر غالب رہتا ہےتو اللہ پاک اس سےخوش ہوکر اس  کا مقام اس  قدر بلند فرمادیتا ہے کہ اس کے عبادت گُزار بندے بھی اس کے پاس حاضر ہو کر اس سے مُلاقات کرتے ہیں۔افسوس!آج ہمارے مُعاشرے میں افضلیت کا معیارصرف یہی رہ گیا ہے کہ ہم مالداروں، سرمایہ داروں،افسروں،وزیروں،دنیوی منصب رکھنے والوں،مہنگی گاڑیوں میں گُھومنے والوں،مہنگے موبائل،کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ رکھنے والوں،عُمدہ لباس میں ملبوس رہنے والوں،اُونچی بلڈنگوں، خُوبصورت بنگلوں یا  مہنگےعلاقوں میں بسنے والوں،گوری رنگت والوں اور اعلیٰ نسب والوں کو  ہی سب سے افضل  و بہتر جانتے اور صبح و شام انہیں کے گُن گاتے  نظرآتے ہیں جبکہ اللہ پاک کے نزدیک وہی مسلمان زیادہ عزت و اِکْرام والا ہے کہ جوتقویٰ و پرہیزگاری  میں دوسروں سے زیادہ ہو،چُنانچہ پارہ 26سُوْرَۃُ الْحُجُرات کی آیت نمبر 13 میں