Book Name:Hirs kay Nuqsanaat or Qana_at ki Barkaat

شارحِ مُسْلِم حضرت سَیِّدُنا علّامہ شَرَفُ الدِّین نَوَوِی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  اِس آخری حدیثِ پاک کے تَحت لکھتے ہیں: یعنی اللہ  پاک کی عبادت میں خُوب حرْص کرو اور اِس پر اِنعام کا لالچ رکھو مگر اِس عبادت میں بھی اپنی کوشش پر بھروسا کرنے کے بجائے اللہ کریم سے مدد مانگو۔([1])

         حکیمُ الاُمَّت مُفتی اَحمد یار خان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:خیال رہے کہ دُنیاوی چیزوں میں قَناعت اور صبْر اچھا ہے مگر آخِرَت کی چیزوں میں حرْص اور بے صَبْری اعلیٰ ہے،دِین کے کسی دَرَجہ پر پہنچ کر قناعت نہ کرلو آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔([2])

سُبْحٰنَ اللہ!معلوم ہوا! ہر حرْص بُری نہیں بلکہ  جو حرْص آخِرَت سے مُتَعَلِّـقَہ اُمورپرمَبْنِی ہو وہ قابلِ تعریف ہے،یہ بھی پتا چلا کہ انسان کتنی ہی نیکیاں کرلے مگر نیکیوں کی حرص میں کمی نہیں آنی چاہئے،البتّہ دُنیاوی مُعاملات میں قناعت کرنا اچھی چیز ہے۔آئیے!قناعت کی تعریف اور اُس کی فضیلت کے بارے میں سُنتے ہیں۔

قناعت کی تعریف

شيخُ الحديث حضرتِ علّامہ عبدُالمُصطَفیٰ اَعْظَمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں:انسان کو جو کچھ خُدا (پاک)کی طرف سے مِل جائے اس پر راضی ہو کر زندگی بسر کرتے ہوئے حرص اور لالچ کو چھوڑ  دینےکو قناعت کہتے ہيں۔([3])جبکہ علّامہ مِیْر سَیِّد شریف جُرجانی حَنَفی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہقناعت کی تعریف بیان کرتے ہوئے اِرشاد فرماتے ہیں:ھِـيَ السُّکُوْنُ عِنْدَ عَدَمِ الْمَاْلُوْفَاتِ  یعنی  روزمرّہ اِسْتِعْمال ہونے والی چيزوں کے نہ ہونے پر بھی راضی رہنا قناعت ہے۔([4])

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                 صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یاد رکھئے!اَصْل مالداری یہ نہیں کہ انسان کے پاس کثیر مال و دولت ہو بلکہ اَصْل مالداری تو یہ ہے کہ اگرچہ مال کم ہو مگر اُس پر قناعت حاصِل ہو، کیونکہ مال و دولت والا شخص ایسا مالدار ہے کہ اُسے کتناہی کثیرمال مِل جائے مگر مزید مال کی خواہش باقی رہتی اور اِس مال میں کمی بھی آتی رہتی ہے جبکہ قناعت کرنے والا شخص ایسا مالدار ہے  کہ اُس کے پاس کتنا ہی کم مال کیوں نہ ہو مگر وہ مزید کی تمنّا نہیں کرتا نیز قناعت کی دولت میں کمی بھی نہیں آتی ،بہرحال قناعت عُمد ہ  عادت ہے اور جسے نصیب ہوجائے وہ  



[1] شرح نووی،باب الایمان للقدر و الاذعان لہ،الجزء:۱۶، ۸/۲۱۵ملخصاً

[2]مرآۃ المناجیح،۷/۱۱۲

[3] جنتی زیور،ص۱۳۶بتغیر قلیل

[4] التعريفات للجرجانی،باب القاف،تحت اللفظ:القناعۃ، ص۱۲۶