Book Name:Aala Hazrat Ki Ibadat o Riazat

اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بتایا ہواہے۔اِرْشادفرماتے ہیں:صُوْمُوا تَصِحُّوایعنی روزہ رکھو تَنْدُرُسْت ہوجاؤگے۔(المعجم الاوسط، الحدیث۸۳۱۲،   ج۶،ص۱۴۶و۱۴۷)

اعلیٰ حضرت (رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ)اُن اَوْلیائے کامِلِین میں سے تھے جن کے قُلوب پر فرائض ِالہٰیہ کی عَظَمت چھائی رہتی ہے،چنانچہ جب 1339ہجری کا ماہِ رَمَضان مئی ،جون 1921میں پڑا اور مسلسل عَلالت و ضُعْف ِفَراواں (شدید کمزوری)کے باعِث اعلیٰ حضرت (رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ)نے اپنے اندر موسمِ گرما میں روزہ رکھنے کی طاقت نہ پائی تو اپنے حق میں یہ فتویٰ دیا کہ پہاڑ پر سردی ہوتی ہے وہاں روزہ رکھنا ممکن ہے لہٰذا روز ہ رکھنے کے لیے وہاں جانا استِطاعت کی وجہ سے فَرْض ہوگیا ۔پھر آپ روزہ رکھنے کے ارادے سے کوہِ بھوالی ضلع نینی تال تشریف لے گئے ۔(تجلیاتِ امام احمد رضا، ص133)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!           صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

     میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! دیکھا آپ نے کہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کتنی کم غِذا اِستِعمال فرماتے ! کاش ہماری بھی ڈَٹ کر کھانے کی عادت نکل جائے اور قفلِ مدینہ لگانے کی عادت بن جائے۔اس کے عِلاوہ سیّدی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فَرْض عِبادات کو بجا لانے میں اس قَدَر مُحتاط تھےکہ 7 سال کی عُمرِ مُبارَک سے ہی روزوں کا اہتِمام شُروع  فرمادیا اور اَخیرِ عمر تک نہ تو کوئی روزہ چھوڑا اور نہ ہی قَضا کرنے کی حاجت پیش آئی ۔مگر افسوس !فی زمانہ ہمارے مُعاشرے میں لوگ رَمَضان کے روزے چھوڑنے کےلیے بے شُمار جَتَن کرتے ہیں، بہانے بناتے اور کسی عُذرِ مُعْتَبَر کے بِغیر روزے چھوڑ دیتے ہیں۔ یا د رکھئے! سَردَرْد، مَتْلی، ہلکا بُخار، کھانسی اور دیگر چھوٹی چھوٹی بیماریوں کی وجہ سے روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے ۔اگرچہ بعض مجبوریاں ایسی ہیں جن کے سَبَب رَمَضانُ الْمُبارَک میں روزہ نہ رکھنے کی