Book Name:سادات کرام کے فضائل

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!سُنا آپ نے کہ ہمارے بُزرْگانِ دِین رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہِم اَجْمَعِیْن کے سینے میں ساداتِ کِرام کے ساتھ ہَمْدَرْدِی و خَیر خَواہی کا جَذبہ کس قَدَر کُوٹ کُوٹ کر بَھرا ہُوا تھا کہ جو عِیدِ سعید کے مَوقع پر بھی حاجَت مَند ساداتِ کرام کو نہیں بُھولتے تھے،اپنی ذات کے لئے توتنگ دَستی بھی ہنسی خوشی برداشت کرلیا کرتے تھے مگر قُربان جائیے کہ رِضائے اِلٰہی اور خُوشْنُودِیِ مُصْطَفٰے کےحُصول کے لئے سارے سیّدوں کے سردار،ساری کائنات کے سالارصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نِسْبَت و شَرَافَت حاصِل ہونے کے سبب ساداتِ کِرام کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے تھے،حتّٰی کہ اپنی خوشیاں اور اپنے حِصّے کی رَقْم بھی اُن کے قَدْموں پر نِثار کردیا کرتے اور یوں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  اور اُس کے رَسُول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی کَرْم نوازِیوں کے حَق دار قرار پاتے تھے،لہٰذاہمیں چاہئے کہ ہم بھی  اِن اللہ والوں کی پَیْرَوِی کرتے ہوئے اپنے دِل میں ساداتِ کرام کی مَحَبَّت و اُلفت کو بَسائیں،اِن کی شان و عظمت کو پہچانیں،اِن کا سہارا بنیں اور حاجت مند ساداتِ کرام کی خَیر خَواہی کو اپنی زِندگی کا لازِمی حِصَّہ بنائیں۔

بَیان  کَردہ حِکایت سے ہمیں ایک  مَدَنی پُھول یہ بھی مِلا کہ جو لوگ سادات کہلاتے ہیں،ہمیں اُن  سے سَیِّد ہونے کا ثُبوت مانگنے کے بجائے اُنہیں سَیّد تسلیم کرکے دِل و جان سے اُن کی تعظیم اور حَسْبِ حَیْثِیَت اُن کی خِدمت کرنی چاہیے،چنانچہ

سَیِّد ہونے کا ثُبوت مانگنا کیسا؟

اَمیرِ اَہلسُنّت،بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مَولانا ابُو بِلال محّمد اِلیاس عطّار قادِرِی رَضَوِی ضِیائی دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ  سے سُوال ہوا کہ اگر کسی کے سَیِّد ہونے کا ثُبوت نہ ہو تو کِیا اِس کی  بھی تعظیم کی جائے گی؟آپ نے اِرْشاد فرمایا:تعظیم کے لیے نہ یَقین دَرْکارہے اور  نہ ہی کسی خاص سَنَد کی حاجَت لہٰذا جو لوگ