Book Name:Safar-e-Meraj Or Ilm-e-Ghaib-e-Mustafa صلی اللہ تعالی علیہ وسلم

نے چاہا  بُلا کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فیضیاب فرمایا ۔([1])

قرآنِ  کریم میں اس کوان الفاظ سے بیان کیاگیاہے:چنانچہ پارہ 27 سُوْرَۂ نجْم کی آیت نمبر8 اور 9 میں ارشاد ہوتاہے:

) ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰىۙ(۸) فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰىۚ(۹)(

(ترجَمۂ کنزُالایمان: پھر وہ جلوہ نزدیک ہواپھر خوب اتر آیا، تو اس جلوے اور اس مَحْبُوب   میں دوہاتھ کافاصلہ رہا بلکہ اس سے بھی کم)پھر وہاں کیا ہوا،یہ ہماری عقل کی پہنچ سے باہر ہے ۔پھر جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم دیدارِ خداوندی سے فیضیاب ہوکر اوراچھی طرح سیر فرما کر اوراللہعَزَّ  وَجَلَّ کی روشن نشانیوں کا مُعاینہ و مُشاہَدہ فرما کر آسمان سے زمین پر تشریف لائے اور بَیْتُ الْمَقْدِس میں داخل ہوئے اور بُراق پر سُوار ہو کرمَکّۂ مُکَرَّمہ کے لیے روانہ ہوئے تو راستہ میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بَیْتُ الْمَقْدس سے مَکّۂ مُکَرَّمہ تک کی تمام منزلوں اور قُریش کے قافلوں  کو بھی دیکھا۔ یہ تمام مَراحل طے ہونے کے بعد جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مسجدِحرام میں پہنچے تو چونکہ ابھی رات کا کافی حصہ باقی تھا،اس لیے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سوگئے۔([2])

خدا کی قُدرت کہ چاند حق کے، کروڑوں  منزل میں جلوہ کرکے

ابھی نہ تاروں  کی چھاؤں  بدلی،کہ نُور کے تڑکے آلیے تھے

(حدائقِ بخشش،ص۲۳۷)

کلامِ رضا کی وضاحت:

یعنی خدا کی شان دیکھئے کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  تھوڑی ہی دیر


 

 



[1]سیرتِ مُصطَفےٰ،ص۷۳۳ - ۷۳۴

[2]  سیرتِ مصطفی، ص۷۳۵ملخصاً