Book Name:Aulad Ki Tarbiat Or Walidain Ki Zimmedariyan

چھینک آئے تو آواز بلند نہ کرے کہ شیطان کو یہ بات پسند ہے کہ ان میں آواز بلند کی جائے۔(شعب الایمان،باب فی تشمیت العاطس،فصل فی تکریرالعاطس،حدیث:۹۳۵۵،۷/۳۲)٭ چھینک آنے پر اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہنا سنت ہے،بہتر یہ ہے کہ اَلْحَمْدُ الِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن کہے۔سننے والے پر واجب ہے کہ فو راً یَرْحَمُکَ اللہُ(یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ تجھ پر رحم فرمائے)کہے۔اور اتنی آواز سے کہے کہ چھینکنے والاخود سن لے۔اگر جواب میں تا خیر کردی تو گنہگار ہو گا۔صرف جواب دینے سے گناہ معاف نہیں ہوگا توبہ بھی کرنا ہو گی۔(بہار شریعت،حصہ۱۶،ص۱۰۲)حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:جب کسی کو چھینک آئے اور وہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہے تو فرشتے کہتے ہیں،رَبِّ الْعٰلَمِیْن اور اگر وہ  اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَکہے،تو فرشتے  یَرْ حَمُکَ اللہُ  یعنی اللہ عَزَّ  وَجَلَّ تجھ پر رحم فرمائے۔(طبرانی اوسط،حدیث:۳۳۷۱،۲/۳۰۵)٭جواب سن کر چھینکنے والا کہے یَغْفِرُاللہُ لَنَا وَلَکُمْ(یعنی اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ہماری اور تمہاری مغفرت فرمائے ) یا یوں کہے،یَھْدِیْکُمُ اللہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ(اللہ عَزَّ  وَجَلَّ تمہیں ہدایت دے اور تمہاری اصلاح فرمائے)۔ (الفتاوی الھندیہ،کتاب ما یحل وما لا یحل،الباب السابع فی السلام الخ،۵/۳۲۶)٭چھینکنے والا زورسے حمد کہے تا کہ کوئی سنے اور جواب دے دونوں کو ثواب ملے گا۔(الفتاوی الھندیہ،کتاب ما یحل وما لا یحل،الباب السا بع فی السلام الخ، ۵/۳۲۶) ٭چھینک کا جواب ایک مرتبہ واجب ہے۔دوبارہ چھینک آئے اور وہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہے تو دو بارہ جواب واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔(بہارِ شریعت،حصہ ۱۶،ص۱۰۲)حضرت ایاس بن سلمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس ایک آدمی کو چھینک آئی،میں بھی موجود تھا۔نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: یَرْ حَمُکَ اللہ،(اللہ عَزَّ  وَجَلَّ تجھ پر رحم فرمائے)اسے دو بارہ چھینک آئی تو حضورِاکرم،نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:اسے زکام ہو گیا ہے۔(ترمذی،کتاب الادب،باب ما جاء کم یشمت العاطس، ۴/۳۴۱، حدیث:۲۷۵۲) اے ہمارے پیارے