Book Name:Na-Mehramon say mel jol ka wabaal

تَعَالٰی عَنْہانے اِسلام قبول کیا  تو بارگاہِ رِسالت میں عرض کی: اے اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!عِکْرِمہ (جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے)یمن کی طرف   بھاگ گئے ہیں اور وہ اس بات سے  خوف زَدہ ہیں کہ آپ انہیں قتل کردیں گے، لہٰذا انہیں اَمان عطا فرمادیجئے۔ چنانچہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کی درخواست قبول کرتے ہوئے سَیِّدُنا عِکْرِمَہ کو اَمان دیدی ۔ پھر حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ حکیم  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا عِکْرِمَہ کی تلاش میں  باپردہ نکل پڑیں اور آخر تِہَامَہ کے ساحل پر جاپہنچیں۔ادھر عِکْرِمَہ بھی اسی ساحل پر پہنچ کر کشتی میں سوار ہوئے تو کشتی ڈگمگانے لگی، کشتی بان نے کہا: اِخلاص سے رب کو یاد کرو۔ عکرمہ بولے:میں کون سے الفاظ کہوں؟ اس نے کہا :لَا اِلٰهَ اِلَّا الله کہو !تو بولے: اس کلمہ کی وجہ سے تو میں یہاں تک پہنچا ہوں ، لہٰذا تم مجھے یہیں اُتار دو۔ اتنے میں حضرت سَیِّدَتُنا اُمّ حکیم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے آپ کو دیکھ لیا اور ان سے کہنے لگیں: اے میرے چچا زاد! میں ایک ایسی عظیم ہستی کے پاس سے آرہی ہوں جو بَہُت زیادہ رحم دل اور احسان فرمانے والی ہے، وہ لوگوں میں سب سے افضل ہے۔ لہٰذا خود کو ہلاکت میں مت ڈالئے!آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے اِصرار پر عِکْرِمَہ رُک گئے، پھر آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے انہیں اَمان کی یقین دہانی کراتے ہوئے واپسی کے لیے آمادہ کر لیا، اس کے بعد دونوں مکہ مکرمہ زَادَہَا اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماً لوٹ آئے  اور یوں حضرت سَیِّدَتُنا  اُمِّ حکیم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا اپنے شوہر حضرت سَیِّدُنا عِکْرِمَہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے ساتھ باپردہ بارگاہِ نبوّت میں حاضِر ہوئیں تو انہوں نے اَمان کی یقین دہانی کے بعد اِسلام قبول کر لیا۔ (کنز العمال، کتاب الفضائل، فضائل الصحابة، عکرمه رضی الله عنه، ٧/ ۲۳۲، حدیث:۳۷۴۱۶)

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو!اس حِکایَت میں ہم سب کے لیے بَہُت سے مَدَنی پھول موجود ہیں اور ان میں سب سے اَہَم مَدَنی پھول یہ ہے کہ حضرت سَیِّدَتُنا اُمِّ حکیم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے اِسلام لانے کے بعد اپنے شوہر کو بھی اِسلام کی حَقّانِیَّت کے سائے میں لانے کے لیے اس قدر طویل سفر کیا مگر اِسلامی تعلیمات پر عَمَل کسی بھی موقع پر ترک نہ کیا اور پُرمَشَقَّت سفر میں بھی باپردہ رہیں۔ یوں