Book Name:Fazilat ka Miyar Taqwa hay (Islamic Sisters)

”فاسق“ہے۔(5)اورجواپنی ان حرکتوں سے توبہ نہ کرے وہ ”ظالم“ہے۔

حضرت  سَیِّدُنا ابنِ عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما نے فرمایا:اگر کوئی گناہ گار مسلمان اپنے گناہ سے توبہ کر لے تو توبہ کے بعد اس کو اس گُناہ سے عار دِلانا بھی اسی مُمانعت میں داخل ہے۔ اسی طرح کسی مسلمان کو کُتا، گدھا، سُور کہہ دینا بھی ممنوع ہے یا کسی مسلمان کو ایسے نام یا لقب سے یاد کرنا جس میں اس کی برائی ظاہر ہوتی ہو یا اس کو ناگوار ہوتا ہو یہ ساری صورتیں بھی اسی ممانعت میں داخل ہیں۔ (تفسیر خزائن العرفان، ص۹۵۰، پ۲۶،الحجرات:۱۱)اور حضرت(سَیِّدُنا) عبدُ اللہ بن مسعود صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:اگر میں کسی کو حقیر سمجھ کر اس کا مذاق بناؤں تو مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ مجھے کُتّا نہ بنادے۔(تفسیر صاوی، پ۲۶، الحجرات:۱۱،۵/۱۹۹۴)(عجائب القرآن مع غرائب القرآن،ص۳۸۹بتغیر)

میٹھی میٹھی اسلامی بہنوں!سُنا آپ نے کہ اپنے آپ کو دوسروں سے افضل جاننا،مُتَّقی  مُسلمانوں کو بلا وجہِ شرعی حقیر و  کم تَر سمجھنایا کسی بھی طرح ان کا مذاق اُڑانا کس قدر ہلاکت خیز ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص اس مُوذی مرض میں مُبْتَلا  ہے تو اسے چاہئے کہ ہوشمندی کا مُظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو عاجزی  واِنکساری کا پیکر بنائے،کسی کو افضل و غیر افضل قرار دینے کا اِخْتیار اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اور اس کے  رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَکے سپرد کردے،آج تک جتنے مسلمانوں کو حقیر سمجھ کر ان کی دل آزاری کا گُناہ اپنے سَر لیا اگر ممکن ہو تو انہیں تلاش کرکے ان سے مُعافی تلافی کی ترکیب بنائے،ساتھ ساتھ بارگاہِ الٰہی میں بھی توبہ و اِسْتِغْفار بجالاکر اس آفت سے چُھٹکارا پانے کے لئے دُعا بھی کرتا رہے، خبردار!خبردار!اگرکسی مُتَّقی مسلمان کو بظاہر خلافِ مُروَّت کام کرتا دیکھے تو ہرگز دل میں بدگُمانی نہ کرے کہ اس طرح کسی قسم کا فائدہ ملنا تو دُور کی بات ہے اکثر شرمندگی ہی اُٹھانی پڑتی ہے۔آئیے!اس ضمن میں  دو سبق آموز حکایات سنتے ہیں اور عبرت کے مدنی پھول چنتے ہیں چنانچہ

کیا یہ بھی مجھ سے بہتر ہو سکتا ہے؟