Book Name:Ashabe Khaf Ka Waqiya

لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَةً مِّنْكَۚ-وَ ارْزُقْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ(۱۱۴)(پ۷،المائدۃ:۱۱۴)

کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ہمارے اگلے پچھلوں کی اور تیری طرف سے نشانی اور ہمیں رزق دے اور تُو سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔

شیخ الحدیث حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:حضرت سَیِّدُنا عیسیٰ رُوحُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دُعا سے یہ سبق ملتا ہے کہ جس دن قدرتِ خداوندی کا کوئی خاص نشان ظاہر ہو،اس دن خوشی منانا اور خوشی کا اظہار کر کے عید منانا حضرت سَیِّدُنا عیسیٰ روحُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی مُقَدَّس سُنّت ہے۔(1)بالفرض عُرس کے موقع پر اگر کہیں خلافِ شرع کام ہوتے بھی ہیں تو ان کاموں کو ختم کیا جائے گا نہ کہ عرس کو چُنانچہ

دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 679صفحات پر مشتمل کتاب”جنّتی زیور“ صفحہ206 پر ہے:اولیائے کرام عَلَیْہِم رَحْمَۃُ اللّٰہ ِالسَّلام کے مزارات پر حاضری مسلمانوں کے لئے باعثِ سعادت و برکت ہے ،ان کی نیاز وفاتحہ،ایصالِ ثواب مستحب اور خیر و برکت کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔البتہ عُرسوں میں جو خلافِ شریعت کام ہونے لگے ہیں مثلاً قبروں کو سجدہ کرنا،عورتوں کا بے پردہ ہو کر مَردوں کے مجمع میں گُھومتے پھرنا،عورَتوں کاننگے سر مزاروں کے پاس جُھومنا،چِلّانا ،نامحرم مَردوں کو دیکھنا،باجا بجانا، ناچ کرانا، یہ سب خُرافات ہر حالت میں ہر جگہ ممنوع ہیں،بزرگوں کے مزاروں کے پاس تو اور زیادہ مذموم ہیں، لیکن ان خرافات و ممنوعات کی وجہ سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بزرگوں کا عرس حرام ہے،بلکہ اس کے بجائے جو کام حقیقت میں حرام اور ممنوع ہیں، ان کو روکنا لازم ہے۔ ناک پر اگر مکھی بیٹھ گئی ہے تو مکھی کو اُڑا دینا چاہیے ناک کاٹ کر نہیں پھینک دینی چاہیے۔اسی طرح اگر جاہلوں اور فاسقوں نے عرس میں کچھ حرام اور ممنوع کاموں کو شامل کردِیا ہے، تو ان حرام و

مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ

[1] عجائب القرآن مع غرائب القرآن،ص۹۳ملخصاً