Book Name:Hasnain Karimayn say Huzor ki Muhabbat

          میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! غور کیجئے!جب آقا عَلَیْہِ السَّلَام  کوایک پتھر کا حال مَعْلُوم  ہے اور وہ جانتے ہیں کہ کس پتھر میں ہم سے کتنی مَحَبَّت ہے تو وہ بندۂ مؤمن کے دلی حالات سےبھی یقیناًواقف ہیں، جبھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حَضْرتِ حذیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کے کہے بغیر ہی ان کی دلی خواہش پر مطلع ہوگئے اور ان کے لیے اور ان کی والدہ کے لیے دُعائے مغفرت فرمائی،اس رِوایت  کو سُن کر اگر یہ وسوسہ آئے کہ دلوں کے حالات اور کیفیات کا علم تو غیب ہے اور علمِ غیب صرف اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے پاس ہے تو یاد رکھ لیجئے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہادَۃ ہے، اس کا علمِ غیب ذاتی یعنی اس کا اپنا ہےاور ہمیشہ ہمیشہ سے ہے جبکہ ا نبِیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامُ اور ا ولیائے عِظام رَحِمَہُمُ اللہُ السّلام کا علمِ غیب ذاتی نہیں بلکہ عطائی یعنی اللہ  تَعَالٰی کا دیا ہواہے اور انہیں یہ علم ہمیشہ ہمیشہ سے نہیں ہےبلکہ جب سےاللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے انہیں دیا ہے،تب سے ہے اور جتنا دیااُتنا ہی ہے، اُس کے دیےبغیر ایک ذرّہ کا بھی علم انہیں حاصل  نہیں، لہٰذا اللہ عَزَّ  وَجَلَّ ہی انبیا اور اولیاء کو علم عطا فرماتا ہے اور وہ اس علم کو آگے بھی پھیلاتے ہیں، چنانچہ علمِ غیبِ مُصْطَفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں قرآنِ پاک میں اِرْشاد ہوتا ہے :

وَ مَا هُوَ عَلَى الْغَیْبِ بِضَنِیْنٍۚ(۲۴) (پارہ:۳۰، سورۃ التکویر:۲۴)

تَرجَمَۂ کنزُالایمان:اور یہ نبی غیب بتانے میں بخیل نہیں

اِس آیتِ کریمہ کے تحت تفسیرِخازِن میں ہے:(اس آیت سے)مُراد یہ ہے کہ سرکارصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَکے پاس علمِ غیب آتا ہے تو لوگوں پر اُسے بیان کرنے میں بخل نہیں فرماتے بلکہ تم کو بتاتے ہیں۔ (خازن،۴/۳)اِس آیت و تفسیرسے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کے محبوب، دا نائے غیوبصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَلوگوں کو غیب بتاتے ہیں اور ظاہر ہے بتائے گا وُہی،جو خود بھی جانتا ہو۔

سیدی اعلیٰ حَضْرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ’’حدائقِ بخشش شریف‘‘ میں کیا خوب فرماتے ہیں: