Book Name:Yazed ka Dard Naak Anjaam

پیٹ کے دَرْد اورآنتوں کے زَخْموں کی ٹِیس (یعنی تکلیف)سے ماہیِ بے آب(یعنی جس طرح مچھلی پانی کے بغیر تڑپتی ہے) کی طرح تڑپتا رہتا تھا ، حِمْص میں جب اُسے اپنی مَوت کا یقین ہوگیا تو اپنے بڑے لڑکے مُعاویہ کو بِسْترِ مَرْگ پر بُلایا اور اُمورِ سَلْطَنَت کے بارے میں کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ بے ساخْتہ بیٹے کے مُنہ سے چیخ نکلی اور نہایت ذِلَّت و حقارت کے ساتھ یہ کہتے ہوئے باپ کی پیشکش کو ٹھکرا دِیا کہ جس تاج و تخت پر آلِ رسول کے خُون کے دَھبّے ہیں، میں اُسے ہرگز قبول نہیں کرسکتا، خُدا اِس منحوس سَلْطَنَت کی وِرَاثَت سے مجھے مَحْرُوم رکھے، جس کی بنیادیں نواسَۂ رسولکے خُون پر رکھی گئی ہیں ۔یزیداپنے بیٹے کےمُنہ سے یہ اَلْفاظ سُن کر تڑپ گیا اور شِدّتِ رَنْج واَلَم سے بستر پر پاؤں پٹخنے لگا، مَوت سے کچھ دن پہلے یزید کی آنتیں سڑ گئیں اور اُس میں کیڑے پڑ گئے، تکلیف کی شِدّت سے خِنزیر کی طرح چیختا تھا ،پانی کا قَطرہ حَلْق سے نیچے اُترنے کے بعد نِشْتَر کی طرح چبھنے لگتا تھا ، عجیب قَہْر ِالٰہی کی مارتھی ،پانی کے بغیر بھی تڑپتا تھا اور پانی پاکر بھی چیختا تھا  ،با لآخر اِسی دَرْد کی شِدّت سے تڑپ تڑپ کر اُس کی جان نکلی، لاش میں ایسی ہولناک بدبُو تھی کہ قریب جانا مشکل تھا، جیسے تیسے اُس کو سِپُردِ خاک کِیا گیا۔([1])

شیْخِ طریقت ، امِیْرِ اہلسنت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا ابُو بلال محمد الیاس عطّار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنے رسالے ’’امام حُسَیْن کی کرامات‘‘ میں یزید پلید کے اَنْجام کے بارے میں ایک اور واقعہ نقل کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:یزید پلید کی مَوت کا ایک سَبَب یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک رُومیُّ النَّسْل لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوگیا تھا، مگر وہ لڑکی اندرونی طور پر اُس سے نفرت کرتی تھی ، ایک دن رنگ رلیاں مَنانے کے بہانے اُس نے یزید کو دُور ویرانےمیں تنہا بُلایا، وہاں کی ٹھنڈی ہواؤں نے یزید کو بَدمَسْت کردِیا، اُس دوشیزہ نے یہ کہتے ہوئے کہ جو بے غیرت و نابَکار (یعنی نِکَمّا) اپنے نبی کے نواسے کا غَدّار ہووہ میرا کب وفادارہو سکتا ہے ، خنجرِ آبدار (تیز دھار)کے پے در پے وار

 



[1]تاریخ کربلا،ص۳۴۵