Book Name:Seerat e Sayyiduna Zubair bin awam

پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اہلِ مکہ نے تختۂ دار کے گِرد چالیس(40) نِیام بَردار پہرے دار کھڑے کر رکھے تھے اورحَضْرتِ خُبَیْبرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا جَسَدِ عالی چالیس(40)دن گُزرنے کے بعدبھی بالکل تَرو تازہ تھا۔

جَبیں میلی نہیں ہوتی دَہَن میلا نہیں ہوتا

غُلامانِ محمد کا کفن میلا نہیں ہوتا

حَضْرتِ سیِّدُنا زُبَیْر بِن عوّام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے بڑی ہوشیاری سے عاشِقِ مُصْطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لاشۂ مبارک کو گھوڑے پر رکھا اور چل پڑے، مگر اسی اَثْنا میں ستّر(70)دُشْمنوں نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکو گھیر لیا، تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے جیسے ہی مجبوراً جَسدِ خاکی کو زمین پر رکھا، تو عاشق کے فِراق میں پہلے سے بے تاب زمین نے لاش کو ہمیشہ کے لیے اپنی آغوش میں لے لیا،یہی وجہ ہے کہ حَضْرتِ خُبَیْبرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو ”بَلِیْعُ الْاَرْض(جنہیں زمین نگل گئی)کے لَقَب سے یادکیاجاتا ہے۔پھر حَضْرتِ زُبَیْر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُاہلِ مکہ  کی طرف متوجّہ ہوئے اور فرمایا: ’’اے گروہِ قُریش!تمہیں ہمارے خِلاف (مُقابلےکرنے)کی جُرأت کیسے ہوئی؟ پھر اپنا عمامہ سَرسے اُتارکرفرمانے لگے: مجھے پہچانو!میں زُبَیْر بِن عوّام ہوں، میری والِدَہ حضورسَیِّدِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پُھوپھی حضرتِ صَفِیَّه ہیں اور میرے رفیق مِقْداد اَسْود ہیں۔ ہم دونوں اپنے شکار کو پَل بَھر میں دَبوچنے والے شیر ہیں، اب تُمہاری مَرضی چاہو تو لڑ لو اور چاہو تو ہمارا راستہ چھوڑ کر واپس اپنی راہ کو پَلَٹ جاؤ۔ اہلِ مکہ نے دونوں کا راستہ چھوڑ کر پیچھے ہٹنے میں ہی عَافِـیَّت جانی۔ جب یہ دونوں بارگاہِ مُصْطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  میں حاضر ہوئے تو حَضْرتِ جبرائیلِ امین عَلَیْہِ السَّلَام نے حاضرِ خدمتِ اَقْدس ہو کر اِن دونوں کے حَق میں یہ بِشارتِ عُظْمٰی سنائی: ” یارَسُوْلَاللہصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ !آج تو فِرِشْتے بھی آپ کے ان دو ساتھیوں پر فَخْر کر رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ آیتِ مُبارَکہ تِلاوت کی: