Book Name:Bad shuguni haram hay

فَاِذَا جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖۚ-وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَهٗؕ-اَلَاۤ اِنَّمَا طٰٓىٕرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(۱۳۱)

ترجَمۂ کنز الایمان:تو جب انہیں بھلائی ملتی کہتے یہ ہمارے لئے ہے اور جب بُرائی پہنچتی تو موسیٰ اور اس کے ساتھ والوں سے بَدشُگُونی لیتے ،سُن لو ان کے نصیبہ (مقدّر) کی شامت تو اللہ کے یہاں ہے لیکن ان میں اکثر کو خبر نہیں۔۹،الاعراف :۱۳۱)

مُفَسِّرِشَہِیر،حکیمُ الاُمَّت حضر  ت  مفتی احمد یار خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان  اِس آیَت کے تَحْت لکھتے ہیں :جب فرعونیوں پر کوئی مصیبت(قَحْط سالی وغیرہ) آتی تھی تو (وہ لوگ)حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام  اور ان کے ساتھی مؤمنین سے بَدشُگُونی لیتے تھے ، کہتے تھے کہ جب سے یہ لوگ ہمارے ملک میں ظاہِر ہوئے ہیں تب سے ہم پر مصیبتیں بَلائیں آنے لگیں۔ (مُفْتی صاحب مزید لکھتے ہیں:)انسان مُصیبتوں ،آفَتوں میں پھنس کر توبہ کرلیتا ہے مگر وہ لوگ اَیسے سرکش تھے کہ ان سب سے ان کی آنکھیں نہ کُھلیں بلکہ ان کا کُفْروسرکشی اور زِیادَہ ہوگئی کہ جب کبھی ہم ان کو آرام دیتے ،اَرْزانی (سستی )،چیزوں کی فَراوانی وغیرہ تو وہ کہتے کہ یہ آرام وراحَت ہماری اَپنی چیزیں ہیں ،ہم اِس کے مُستحق ہیں نیز یہ آرام ہماری اَپنی کوشِشوں سے ہیں ۔ (تفسیر نعیمی،۹/۱۱۷)

ایک اورمقام پر پارہ 5،سورۂ نِسَآء کی آیت نمبر78 میں  یہودیوں کے متعلق ارشاد ہوتا ہے۔

وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِكَؕ-قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِؕ-فَمَالِ هٰۤؤُلَآءِ الْقَوْمِ لَا یَكَادُوْنَ یَفْقَهُوْنَ حَدِیْثًا(۷۸)

ترجمۂ کنزالایمان:اورانہیں کوئی بھلائی پہنچے تو کہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور انہیں کوئی برائی پہنچے تو کہیں یہ حضور کی طرف سے آئی تم فرمادو سب اللہ  کی طرف سے ہے تو ان لوگوں کو کیا ہوا کوئی بات سمجھتے معلوم ہی نہیں ہوتے !