آسمان و زمین والے سب خدا کی بارگاہ کے سوالی ہیں

تفسیرِ قراٰن کریم

آسمان وزمین والے سب خدا کی بارگاہ کے سُوالی ہیں

* مفتی محمد قاسم عطّاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2022ء

اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (یَسْــٴَـلُهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍۚ(۲۹)) ترجمۂ کنز العرفان : آسمانوں اور زمین میں جتنے ہیں سب اُسی کے سوالی ہیں ، وہ ہر دن کسی کام میں ہے۔ (پ27 ، الرحمٰن : 29) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تفسیر : آیت میں فرمایا کہ آسمانوں میں رہنے والے فرشتے ہوں یا زمین پر بسنے والے جن ، انسان یا اور کوئی مخلوق ، اعلیٰ ہو یا ادنیٰ ، کوئی بھی اللہ تعالیٰ سے بے نیاز نہیں ، بلکہ سب کے سب اس کے فضل کے محتاج ہیں اور زبانِ حال یا قال سے اُسی کی بارگاہ کے سوالی ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کمال کی طرف اشارہ ہے کہ ہر مخلوق چاہے وہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو ، وہ اپنی ضروریات کو ازخود پورا کرنے سے عاجز ہے اور اللہ تعالیٰ کی محتاج ہے۔ (خازن ،  الرحمٰن ،  تحت الآیۃ : 29 ، 4 / 211 ، جلالین ،  الرحمٰن ،  تحت الآیۃ : 29 ،  ص444 ،  ملتقطاً)

آسمان والوں میں جبرائیل و میکائیل ، حاملینِ عرش ، مُقَرَّبین اور دیگر تمام فرشتے داخل ہیں اور زمین والوں میں انبیاءو اولیاء و صلحاء و جملہ مؤمنین و مؤمنات شامل ہیں ، بلکہ بارگاہِ بےنیاز کے منگتوں میں تو مشرک و کافر بھی شامل ہیں ، یونہی حیوانات و نباتات کی فریاد رَسی بھی اِسی پاک بارگاہ سے ہوتی ہے۔ چنانچہ تمام انسانوں ، جانوروں اور اَرْضی مخلوقات کے بارے میں فرمایا گیا : (وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا) ترجمہ : اور زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمہ کرم پر نہ ہو۔ (پ12 ، ہود : 6) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

آسمان و زمین والوں کی تسبیح اور ہر شے کارب کی حمد وپاکی بیان کرنے کا تذکرہ قرآنِ مجید میں کچھ اِس انداز میں ہے۔ “ ساتوں آسمان اور زمین اور جو مخلوق اُن میں ہے ، سب اُسی کی پاکی بیان کرتے ہیں اور کوئی بھی شے ایسی نہیں جو اس کی حمد بیان کرنے کے ساتھ اس کی پاکی بیان نہ کرتی ہو لیکن تم لوگ ان چیزوں کی تسبیح کو سمجھتے نہیں۔ بیشک وہ حلم والا ، بخشنے والا ہے۔ “ (پ15 ، بنیٓ اسرآءیل : 44) اور یاد رہے کہ محتاج مخلوق کی تسبیح بھی دعاوسوال ہی ہے۔

اہلِ سماء میں نہایت بلند مقام والے حاملین ِ عرش (یعنی عرش اٹھانے والے فرشتے) مالکِ عرش کے حضور اس طرح دستِ سوال دراز کیے ہوئے ہیں۔ قرآن میں فرمایا : عرش اٹھانے والے اور اس کے ارد گرد موجود (فرشتے) اپنے رب کی تعریف کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور مسلمانوں کی بخشش مانگتے ہیں۔ اے ہمارے رب! تیری رحمت اور علم ہر شے سے وسیع ہے ، تو انہیں بخش دے جوتوبہ کریں اور تیرے راستے کی پیروی کریں اور انہیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔ (پ24 ، المؤمن : 7)

اہل ِ زمین بھی سب رَبُّ العالمین کے دَر کے سوالی ہیں ، اُن میں افضل ترین ہستیاں انبیاء  علیہم الصّلوٰۃُوالسّلام  ہیں ، اُن کی بارگاہِ بے نیاز میں عرضیاں ، درخواستیں ، التجائیں ، فریادیں اور دعائیں ملاحظہ کریں۔

(1) ابوالبشر ، مسجودِ ملائکہ ، سیدنا آدم  علیہ السّلام نے اپنی بخشش و معافی کے لیے عرض کی : اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تو نے ہماری مغفرت نہ فرمائی اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ضرور ہم نقصان والوں میں سے ہوجائیں گے۔ (پ8 ، الاعراف : 23)

(2)خدا کے شکرگزار ، مقبول بندے اور اولوالعزم رسول ، آدم ِ ثانی حضرت نوح  علیہ السّلام نے قوم کی ایذاء رسانی سے تنگ آکر اپنی فریاد بارگاہِ الٰہی میں یوں پیش کی : میں مغلوب ہوں تَو تُو(میرا)بدلہ لے۔ (پ27 ، القمر : 10)

(3)ہر امتحان میں کامیاب ، خدا کے خلیل ، ابوالانبیاء ، حضرت ابراہیم  علیہ السّلام طلبِ حکمت و قربِ الٰہی کے لیے یوں عرض گزار ہوئے : اے میرے رب !مجھے حکمت عطا کر اور مجھے ان سے ملادے جو تیرے خاص قرب کے لائق بندے ہیں۔ (پ19 ، الشعرآء : 83) اور اپنے اعمال کی قبولیت کے لیے عرض کیا : اے ہمارے رب! ہم سے قبول فرما ، بیشک تو ہی سننے والا جاننے والا ہے۔ (پ1 ، البقرۃ : 127) مکہ مکرمہ کے لیے یہ دعا کی : اے میرے رب! اس شہر کو امن والا بنادے اور مجھے اور میرے بیٹوں کو بتوں کی عبادت کرنے سے بچا ئے رکھ۔ (پ13 ، ابراھیم : 35)قیامت کے دن اپنی اور اپنے والدین نیز اہلِ ایمان کی بخشش کے لیے یوں سوال کیا : اے ہمارے رب! مجھے اور میرے ماں باپ کو اور سب مسلمانوں کو بخش دے جس دن حساب قائم ہوگا۔ (پ13 ، ابراھیم : 41)

(4)پاک پیغمبر حضرت لوط  علیہ السّلام نےقوم سے تنگ آکر ان کے خلاف نصرتِ الٰہی کے لیے عرض کیا : اے میرے رب! ان فسادی لوگوں کے مقابلے میں میری مدد فرما۔ (پ20 ، العنکبوت : 30)

(5)صبر و استقامت کی اعلیٰ ترین مثال ، عبدیَّت کی شان ، حضرت ایوب  علیہ السّلام نے مشقت و تکلیف اور اذیت و مرض کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد بارگاہ الٰہی میں شفا کی درخواست کی : بیشک مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔ (پ17 ، الانبیآء : 83)

(6)پیارے نبی ، رحمتِ الٰہی کے خصوصی اظہار کا ذریعہ بننے والی ہستی ، حضرت یونس  علیہ السّلام نے سمندر کی گہرائی میں ، مچھلی کے پیٹ میں بارگاہ ِ بے کس پناہ میں نجات کے لیے یوں عرض کیا : تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو ہرعیب سے پاک ہے ، بیشک میں اپنی جان پر زیادتی کرنے والوں میں سے ہوا۔ (پ17 ، الانبیآء : 87)

(7) جلیل القدرپیغمبر ، اولوالعزم رسول ، حضرت موسیٰ کلیم اللہ  علیہ السّلام نے مَدْیَن پہنچ کر بھوک کی حالت میں کھانے کے لیے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا : اے میرے رب! میں اس خیر (کھانے) کی طرف محتاج ہوں جو تو میرے لیے اتارے۔ (پ20 ، القصص : 24) پھر عطائے نبوت کے بعد اُس منصبِ عظیم کی ذمہ داریوں سے بحسن و خوبی عہدہ برآ ہونے کے لیے یہ دعا کی : اے میرے رب! میرے لیے میرا سینہ کھول دےاور میرے لیے میرا کام آسان فرما دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ وہ میری بات سمجھیں۔ (پ16 ، طٰہٰ : 25تا28)

(8) نہایت عظیم فرماں رَوا ، نبی ابن نبی ، حضرت سلیمان  علیہ السّلام نے اُسی مالک المُلک سے اپنے لیے بے مثل سلطنت کی دعا کی : اے میرے رب !مجھے بخش دے اور مجھے ایسی سلطنت عطا فرماجو میرے بعد کسی کو لائق نہ ہو بیشک تو ہی بہت عطا فرمانے والا ہے۔               (پ23 ، صٓ : 35)

(9)بارگاہِ خدا میں عاجزی کے پیکر ، حضرت سیدنا زکریا  علیہ السّلام نے بڑھاپے میں حصولِ اولاد کے لیے اُسی قادرِ مطلق ، خالق و مالک کے حضور درخواست کی : اے میرے رب! مجھے اپنی بارگاہ سے پاکیزہ اولاد عطا فرما ، بیشک تو ہی دعا سننے والا ہے۔ (پ3 ، اٰل عمرٰن : 38) اور کہا : اے میرے رب! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تو سب سے بہتر وارث ہے۔ (پ17 ، الانبیآء : 89)

(10)بے مثل معجزات اور تصرفات کے مالک ، پاک بی بی مریم کے پاک بیٹے ، حضرت عیسیٰ کلمۃ اللہ  علیہ السّلام نے قوم کی درخواست پر آسمان سے کھانوں سے لبریز دسترخوان کے لیے رزَّاقِ حقیقی کی بارگاہ میں دعا کی : اے اللہ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے ایک دسترخوان اُتار دے جو ہمارے لیےاور ہمارے بعد میں آنے والوں کے لیےعید اور تیری طرف سے ایک نشانی ہوجائے اور ہمیں رزق عطا فرما اور تو سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔ (پ7 ، المآئدة : 114)

(11) اسی طرح حبیبِ خدا ، احمدِ مجتبیٰ ، محمدِ مصطفیٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دعائیں قرآنِ مجید میں بھی مذکور ہیں اور احادیث ِ طیبہ میں تو اتنی کثرت سے ہیں کہ علمائے کرام نے ان دعاؤں پر مشتمل جداگانہ ضخیم کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔ نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عرض گزار ہیں : اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔ (پ16 ، طٰہٰ : 114)اے میرے رب! بخش دے اور رحم فرما اور تو سب سے بہتر رحم فرمانے والا ہے۔ (پ18 ، المؤمنون : 118)

اب اِن سب آیات کی روشنی میں سورۂ رحمٰن کی آیت (یَسْــٴَـلُهٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِؕ-كُلَّ یَوْمٍ هُوَ فِیْ شَاْنٍۚ(۲۹)) ترجمہ : آسمانوں اور زمین میں جتنے ہیں سب اسی کے سوالی ہیں ، وہ ہر دن کسی کام میں ہے۔ (پ27 ، الرحمٰن : 29) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) پڑھیں اور خدا کی محبت و عظمت کے تصور میں ڈوب جائیں اور اپنے ہاتھ بارگاہِ بےنیاز میں اٹھا کر دعائیں مانگیں۔ اللہ کریم اپنے پیارے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے ہمیں دنیا و آخرت کی سعادتوں سے مالا مال فرمائے۔ آمین

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران مجلس تحقیقاتِ شرعیہ ، دارالافتاء اہل سنّت ، فیضانِ مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code