Hazrat Aisha Siddiqa رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہَا Ki Hayat e Tayyiba
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے

اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّد تُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہَا  

کی پیاری سیرت

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا      تاریخِ اسلام کی وہ پاکیزہ ،عالمہ وفاضلہ ہستی ہیں جنہیں براہ راست بارگاہ مصطفوی سے  اکتساب فیض نصیب ہوا، آپ دین  کے دوتہائی علوم  کی حقیقی وارثہ ،علم انساب   میں کمال کی مہارت رکھنے والی ذہین وفطین  عالمہ،حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی عائلی زندگی  کی معتبر راویہ ، امت کے دینی معاملات، معاشرت تعلقات، گھریلو احوال  کےبارے میں رہنمائی کےفرائض سرانجام دینے والی عظیم مفتیۂ  اسلام اور سیرت مصطفی  کو بیان کرنے والی ثقہ محدثہ ہیں۔کتب احادیث اور تاریخ    اسلام کی ثقہ کتابیں آپ کی سیرت ،مقام ومرتبہ،علم وعمل اور دین کے معاملات میں آپ کی رائے ،فتاوی اورفیصلوں سے بھری پڑی ہیں۔ آپ وہ عظیم ہستی ہیں جن   کی عفت وعصمت کو سورہ نور میں بیان کیاگیا۔جلیل القدر صحابیہ ہونے کےساتھ ام المؤمنین کے  عظیم لقب سے ملقب بنت صدیق اکبر  کی سیرت مبارکہ کے مختلف گوشے قارئین  کے لئے بیان کئے جاتے ہیں۔

 

ولادت ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا:

حضرت عائشہ الصدیقہ  رضی اللہ عنھا کی ولادت    حضرت ابوبکر الصدیق رضی اللہ عنھاکے دولت کدہ  میں اس وقت ہوئی جبکہ خلیفۃ المؤمنین کا گھر اسلام کا قلعہ بن چکا تھا۔گویا بہار اسلام  میں آپ  کی پیدائش ہوئی، اسلام  کی آغوش میں آپ نے  پرورش پائی۔ بچپن ہی   سے صحابیہ کے عظیم مرتبہ پر فائز ہوئیں۔

(سیرتِ سیِّد الانبیا، حصہ اوّل، ۴بعثتِ نبوی، ص۹۴.فیضان امہات المؤمنین،ص۶۶)

 

نام ونسب ام المؤمنین  حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا:

آپ کا نام گرامی عائشہ    ہے ، آپ کےوالد  مسلمانوں کے پہلے خلیفہ  امیر المؤمنین  حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی  اللہ عنہ ہیں۔آپ کےبھانجے حضرت عبد اللہ  بن زبیر  کے نام سے آپ کی کنیت ام عبد اللہ  تھی  ۔آپ کا مکمل نسب   طبقات الکبری کے حوالے سے مکتبۃ المدینہ  کےشائع کردہ رسالہ امہات المؤمنین کے صفحہ نمبر۲۴ پر یوں بیان کیاگیا ہے:’’    سیدہ عائشہ بنت ابوبکر صدیق بن ابو قحافہ بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی۔ ‘‘

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد،ذکر ازواج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،ج۸،ص۴۶،امہات المؤمنین، ص ۲۴)

 

حضور سے نسبت   طے پانے کا سبب:

    ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں:رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا:تم تین راتیں مجھے خواب میں دکھائی گئیں ایک فرشتہ تمہیں (تمہاری تصویر)ریشم کے ایک ٹکڑے میں لے کر آیااوراس نے کہا:یہ آپ کی زوجہ ہیں ان کاچہرہ کھولئے۔ پس میں نے دیکھاتووہ تم تھیں میں نے کہا:اگریہ خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تووہ اسے پوراکریگا۔

(صحیح مسلم،کتاب فضائل الصحابۃ،باب فی فضل عائشۃ،الحدیث۲۴۳۸،ص۱۳۲۴،امھات المؤمنین،ص ۲۵)

یوں چھ سال کی عمر میں   بنت صدیق اکبر  رضی اللہ عنھما  کا نکاح حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے ہوا۔اور نکاح کے تین سال بعد  نو سال کی عمر میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی رخصتی  ہوئی  اور نو سال تک  کاشانہ رسالت میں  حضور صلی اللہ علیہ وسلم    کی خدمت میں رہیں۔

 

بچپن کی  یادیں:

ام المؤمنین حضرت  عائشہ  صدیقہ رضی اللہ عنھا  جب کاشانہ رسالت میں رخصت ہوکر آئیں تو اس وقت  آپ کی عمر نو سال تھی۔ اس عمر  کی لڑکیاں عموم گھریلوں ذمہ داریوں میں دلچسپی سے زیادہ  ہم عمر بچیوں کےساتھ کھیل کو د میں وقت گزارنا پسند کرتی ہیں  ،چنانچہ  آپ  رضی اللہ عنھا بھی اپنے بچپن  کی یادوں کےسامان کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم     کی صحبت سے مستفید ہوتی رہیں     اور اپنی ہم عمر سہیلوں کے ساتھ  گھر کی چار دیواری میں کھیلا بھی کرتی تھیں پھر رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم     بھی آپ رضی اللہ عنھا کی   دل جوئی کیا کرتے تھے ۔چنانچہ ایک روز  ام المؤمنین رضی اللہ عنھا  اپنے گڑیوں کےساتھ کھیل رہی تھیں   اور ان گڑیوں میں دو  پروالا  گھوڑا بھی تھا  حضور صلی اللہ علیہ وسلم      تشریف لائے اور پوچھا یہ کیا ہیں  ؟ ام  المؤمنین رضی اللہ عنھا نے عرض کی  یہ میر ی گڑیاں ہیں  ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم      کی نگاہ گڑیوں کے درمیان پڑے پر والے     گھوڑے پر پڑی تو آپ نے پوچھا  یہ کیا چیز ہے ؟ تو آپ نے عرض کی یہ گھوڑا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم    نے فرمایا  گھوڑے کے پر ہوتے ہیں کیا؟ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے عرض کی  : کیا آپ نے سنا نہیں کہ حضرت سیلمان کے گھوڑے کے بھی پر تھے۔ ام المؤمنین رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میری اس بات پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم    نے اتنا تبسم فرمایاکہ آپ کے دندان مبارک  کی زیارت سے میں شاد کام ہوگئی۔

(ملخص از فیضان ام المؤمنین،ص ۷۳ )

 

گھریلو ذمہ داری کے ساتھ علمی نشوونما:

ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا  گوکہ ازواج رسول میں سب سے کم عمر  کی خاتون تھیں لیکن اس کے باوجود آپ رضی اللہ عنھا  نے کاشانہ رسالت    کے امور خانہ داری میں کبھی  تساہل سے کام نہیں لیا بلکہ گھر کے کام کاچ نہایت ہی خوش اسلوبی کےساتھ سرانجام دیتی ، سلائی کڑائی، چکی میں آٹا پیسنا ، قربانی کے جانوروں کی رسیاں  بننا،حضور  کے آرام کا خیال رکھنا  ،مزاج رسول   کو مکمل طور پر سمجھنا  ، حضور     کی فرمانبرداری میں پیش پیش رہنے   کےساتھ  حضور کے فیض سے بھی مستفیض ہوتی رہیں  یہ وجہ کہ آپ کو  قرب مصطفی  سے جو علمی شان نصیب ہوئی  وہ دیگر ازواج  میں  بہت کم نظر آتی ہے۔وقت کےساتھ ساتھ آپ کی علمی وجاہت    میں بھی  اضافہ ہوتا رہا حتی  کہ حضور کے ظاہری وصال کے بعد اگر صحابہ کو کوئی مشکل مرحلہ پیش آتا تو اس کا حل ام المؤمنین رضی اللہ عنھا   ہی پیش کرتیں،بلکہ صحابہ کی  ایک تعداد ہے جنہوں نے   آپ سے  باقاعدہ اکتساب علم کیا ، مسائل سیکھے۔ حضرتِ سیِّدُنا ابوموسیٰ اشعری رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہَا      فرماتے ہیں: ہم اصحابِ رسول کو کسی بات میں اِشْکَال ہوتا تو اُمُّ المؤمنین حضرتِ عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہَا     کی بارگاہ میں سوال کرتے اور آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہَا   سے ہی اس بات کا عِلْم پاتے۔

( سنن الترمذی، ، ص۸۷۳، الحديث:۳۸۸۲، فیضان امھات المؤمنین،ص ۷۴)

حضرتِ سیِّدُنا عُروَہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہَا   اِرشاد فرماتے ہیں:میں نے لوگوں میں اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہَا  سے بڑھ کر کسی کو قراٰن، میراث، حلال وحرام، شعر، اَقوالِ عرب اور نسب کا عالِم نہیں دیکھا۔

(حلیۃ الاولیاء،2/60،رقم:1482، مستدرک، 5/14،حدیث:6793 بتغیرقلیل)

حضرتِ سیِّدُنا قاسِم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہَا   فرماتے ہیں:اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رضیَ اللہ تعالٰی عنہا سیِّدُنا صِدِّیقِ اَکبررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہَا   کے عہدِ خِلافت میں ہی مُستقِل طور پر فتویٰ دینے کا رتبہ حاصِل کر چکی تھیں، یہ اہم دینی خدمت  وصال مبارک تک جاری رہی۔

(طبقات الکبرٰی،2/286 ملخصا)

حضرت مسروق تابعی رحمۃُ اللّٰہِ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: میں نے رسولِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے اکابر اصحاب کو وراثت کے مسائل اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہَا  سے دریافت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

(طبقات الکبریٰ،2/286)

(ماہنامہ فیضان  مدینہ ، رمضان المبارک ۱۴۳۸ھ جون 2017ء،ص  ۶۹،۷۰)

 

روایت حدیث کی خدمات:

ام المؤمنین حضرت عائشہ  رضی اللہ عنھا    کو یہ شرف بھی ملا  ہےکہ آپ نے زیادہ تر وقت حضور کی سنگت و صحبت میں گزارا۔عبادات ،معاشرت، سیاست، قانون سازی، سفارت خانہ کے اصول وضوابط، ملکی وبیرون معلامات ، غزوات، مال غنیمت وغیرہ  کے جملہ احکامات اور فیصلہ سازی    میں حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا طرز عمل براہ رست  دیکھنے کو ملا۔پھر حضور کی عائلی زندگی کی چشم دید گواہ بھی آپ خود تھیں اسیلئے آپ کو اصحاب رسول میں ایک خاص مقام حاصل تھا ۔ہر کوئی آپ کی رائےکو اہمیت دیتا تھا اسیلئے محدثین  کی اکثریت بھی آپ کی روایت کردہ حدیث کو فوقیت دیتی ہے۔آپ کی مرویات کی تعداد دیگر ازواج رسول سے اسیلئے بھی زیادہ ہےکہ آپ  میں ذوق علم ا ور اکتساب فیض کا ملکہ  بہت زیادہ تھانیز آپ کے اندرگفتگو کرنے کا قدرتی ملکہ تھاآپ بلاجھجک رسول اللہ رصلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے  جو پوچھنا چاہتی عرض کردیتی پھر ام المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبری رضی اللہ عنھا کے وصال کےبعد آپ ہی وہ عزت مأب خاتون تھیں جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم    کو انسیت ملتی۔ پس اسی قر ب حضور صلی اللہ علیہ وسلم     کی وجہ سے آپ کی علمی شان وشوکت دیگر صحابیات اور ازواج  میں  ممتاز رہی اور صحابہ  کرام رضی اللہ عنھم کو  دین کے دوتہائی علم کی میراث    بھی آپ  رضی اللہ عنھا کے ذریعے نصیب ہوئی   ۔چنانچہ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہَا  سے دو ہزار دو سو دس (2210) اَحادیث مروی ہیں جن میں ایک سو چوہتر (174) مُتَّفَقٌ عَلَیْہ ہیں یعنی بُخاری ومُسلم دونوں کی رِوایات اور چون (54) اَحادیث صرف بخاری کی ہیں اڑسٹھ (68) اَحادیث صِرف مُسلم کی(بقیہ دیگر کُتُبِ اَحادیث میں ہیں)۔

(ملخص از مراٰۃ المناجیح،8/70، ماہنامہ فیضان  مدینہ ، رمضان المبارک ۱۴۳۸ھ جون 2017ء،ص  ۷۰)


 

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ    کا مقام ومرتبہ :

ام المؤمنین بنت صدیق اکبر رضی اللہ عنھما   کو سب سے بڑا جو شرف اور عزت ملی وہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام سے قرب کا رشتہ تھا،حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکی سب سے محبوبہ زوجہ ہونے کا بھی شرف آپ ہی کو ملا،نیز آپ ہی وہ خاتون ہیں جن کا گھر مھبط وحی تھا،آپ ہی وہ باکمال ہستی ہیں جن کو جبرائیل سلام کیا کرتے تھے،آپ ہی وہ تقوی شعار زوجہ رسول ہیں  جن کی پاکیزگی کی گواہی قرآن نے دی،آپ کی ذات وجہ تسکین جان مصطفی تھیں چنانچہ ام المؤمنین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاخود فرماتی ہیں کہ ’’میری پیشانی پر بوسہ دے کر  رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’اے عائشہ! اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ تجھے اچھا بدلہ عطا فرمائے تم مجھ سے اتنا خوش نہیں ہوتی ہوگی جتنا میں تم سے خوش ہوتا ہوں۔

‘‘(تاریخ مدینہ دمشق، باب صفۃِ خَلْقہٖ ومَعرفَۃ خُلقہ، الحدیث:۷۰۳-۷۰۲، ج۳، ص۳۰۸تا۳۰۹، تلخیص از اللہ والوں کی باتیں ،جلد۲،ص ۸۱)

سیدہ پاک زہرا بتول  حضرت فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَانے  کسی بات پر  بارگاہِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  میں ام المؤمنین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاکے بارے   کچھ کہا تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’ اے بیٹی! وہ تیرے والد کی پیاری ہے۔‘‘

(اعتلال القلوب للخرائطی، باب الرغبۃ الی اللّٰہالخ، الحدیث:۲۳، ج۱، ص۲۵،سنن ابی داود، کتاب الادب، باب فی الانتصار، الحدیث:۴۸۹۸، ج۴، ص۹۵۳، تلخیص از اللہ والوں کی باتیں ،جلد۲،ص ۷۹)

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا   خود  اپنے اوپر اللہ کی کرم نوازیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتی ہیں :’’ بے شک اللہ عزوجل کی نعمتوں میں سے مجھ پریہ بھی ہے کہ حضور اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کا وصال میرے گھر میں اور میری باری میں، میرے سینے اور گلے کے درمیان ہوا،اور اللہ تعالیٰ نے میرے اوران کے لعاب کوان کے وصال کے وقت جمع فرمایا،عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے پاس آئے، ان کے ہاتھ میں مسواک تھی،اوررسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  مجھ پرٹیک لگائے ہوئے تھے،تومیں نے حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کودیکھاکہ مسواک کی طرف دیکھ رہے ہیں،میں نے پہچاناکہ حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  مسواک کوپسندفرماتے ہيں، میں نے پوچھا :آپ کے لئے مسواک لے لوں؟ توآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے سر انور سے اشارہ فرمایاکہ ہاں! میں نے مسواک لی(مسواک سخت تھی )میں نے عرض کی: اسے نرم کردوں؟ توآپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے سرسے اشارہ فرمایا کہ ہاں!تومیں نے( اپنے منہ سے چبا کر) اسے نرم کردیا،پھر حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے اس کواپنے منہ میں پھیرا۔( اس طرح میرا اورسرور دوجہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کالعاب جمع ہوگیا۔) ‘‘

(صحیح البخاری، ،الحدیث۴۴۴۹،ج۳، ص۱۵۷،امھات المؤمنین،ص۳۲،۳۳)

 

قابل رشک زندگی کا سفر آخرت:

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ  کی مبارک زندگی  بے شمار فضیلتوں اور کمالات سے لبریز تھی ،آپ  امت کی وہ ماں ہیں جن سے دینی علوم کے چشمے بہے ، اکابر صحابہ  ان حیات بخش چشموں سے سیراب ہوئے، تابعین نے سیرت رسول  کو ام المؤمنین سے سیکھا،محدثین نے آپ کی بیان کردہ روایات کو  کتب حدیث میں درج کیا، فقہائے امت نے آپ  سے  علم الفقہ حاصل کیا، سیرت نگاروں نے حضور علیہ الصلاۃ والسلام  کے اخلاق و عادات   سے متعلق روایات  آپ ہی سے حاصل کیں۔دنیاوی اعتبارسے حیات رسول کے آخری لمحات  آپ ہی کی گود میں گزرے ،اور آپ ہی کا حجرہ  روضہ رسول بنا ۔ اتنی فضیلتوں کے ساتھ  ام المؤمنین کا سفر آخرت  دنیا کو فیض نبو ت بانٹے ہوئے  سترہ 17 رمضان  المبارک منزل آشنا ہوا ۔عظیم محدیث جلیل القدر صحابی رسول روایت حدیث میں سب پر سبقت لےجانے والے حضرت سیدنا ابوہریرہ نے آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہَا     کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور حسبِ وصیت رات کے وَقْت جَنَّۃُ الْبَقِیْع میں آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہَا     کو سپردِ خاک کیا گیا،  بوقتِ وفات آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہَا     کی عمر شریف 67سال تھی۔

( شرح الزرقانى على المواهب، المقصد الثانى، الفصل الثالث، عائشة ام المؤمنين، ۴ / ۳۹۲،فیضان امھات المؤمنین،ص۸۶)

 

ام المؤمنین  کی بارگاہ میں دعوت اسلامی کا نذرانہ عقیدت ومحبت:

دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ  سے ام المؤمنین کی سیرت طیبہ  کو حسین پیرائے میں بیان کرنے کےلئےایک رسالہ’’امھات المؤمنین‘‘ اور ایک کتاب ’’فیضان امھات المؤمنین‘‘ شائع ہوئی ۔ مذکورہ رسالے اور کتاب میں   تقریبا تمام ہی امھات المؤمنین کی مبارک زندگیوں  کا تذکرہ شامل ہے ۔اس کےعلاوہ دعوت اسلامی ہر سال  17  رمضان المبارک کو دو عرس پاک مناتی ہیں ایک  شہدائے بدر کا ،دوسرا مؤمنوں کی ماں  حضرت عائشہ صدیقہ بن صدیق اکبر رضی اللہ عنھم  کا۔  فیضان عائشہ  کے نام سے منسوب کئی مدارس المدینہ للبنات ، جامعۃ المدینہ للبنات بھی قائم کئے ہیں۔ اس  کے علاوہ  اسلامی ریسرچ سینٹر  دعوت اسلامی کے محققین کی  نگارشات پر مشمتل  ماہنامہ فیضان مدینہ میں بھی کئی مضامین ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی مبارک زندگی پر موجودسب قارئین کو دعوت مطالعہ دیتے ہیں۔ اللہ تعالی ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے صدقے ہماری ،ہمارےمشائخ ،ماں باپ اور ساری دنیا کے مسلمانوں کی مغفرت فرمائے ۔

آمین !بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ سلم

ayesha siddiqa

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مختصر فضائل

ayesha siddiqa

حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا مدینۂ منورہ کا کس قدراحترام فرمایا کرتیں؟