Ameer e Ahlesunnat - Maulana Ilyas Attar Qadri
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے

بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ  کی حیات وخدمات

اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں جن نمایاں شخصیات نے اسلام کی آبیاری کےلئے دینی ،سماجی، اصلاحی، نظریاتی جدوجہد کی  ،معاشرہ  کے بگاڑ کو سنوارا، باطل نظریات کی بیخ کنی کی ،اسلامی تعلیمات کا احیا ءکیا،لوگوں  کی دینی ،اخلاقی  تربیت  کااہتمام کیاان سابقہ  ادوار کی  چوتھی اور پانچوں صدی ہجری میں   حجۃ الاسلام  امام غزالی  رحمۃ اللہ علیہ    کی دینی جدوجہد کے اثرات  معاشرے کی تبدیلی میں نمایاں نظر آتے ہیں ،اسی طرح   پانچویں اور چھٹی صدی ہجری  میں  سلطان  الاولیا ء  ، قطب الزماں   حضرت شیخ عبد القادر الجیلانی الگیلانی  علیہ رحمۃ اللہ  کی علم وعمل سے بھر پورشخصیت مطلع رشدو ہدایت   پر طلوع ہوتی ہے جن کے فیضان علم وعمل سے زمانہ فیضیاب ہوا ،آپ کے تجدیدی کارہائے نمایاں سے  دین کو تقویت ملی، امت  کی اصلاح کا سامان میسرہوا،شریعت  کی بالادستی قائم ہوئی، علماکو ان کا کھویا ہواوقار واپس ملا، مسندتدریس کی سج دھج  پھر سے بحال ہوئی،اسلامی تعلیمات  اور تصوف     کو ازسرنو پروان چڑھنے کا موقع ملااورسنت رسول  پر عمل کا جذبہ بیدار ہوا۔ حضور سیدی غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ  کی  دینی تحریک سے سب سے بڑا فائدہ امت کو تربیت یافتہ  افراد کار ، رجال علم وعمل کی صورت میں ملا، آپ کی تعلیمات سے مستفیض اور آپ کی صحبت بابرکت سے متاثر ایسے اولیاء  پیدا ہوئے جنہوں نے آپ کے بعد امت کی اصلاح کابیڑااٹھایا ۔ اور یوں آپ کے فیضان کا سلسلہ چلتا رہا حتی کہ پھر وہ دور آیا جب ایک بار پھر اسلامی تعلیمات پر عمل کی کیفیت کمزور ہوتی جارہی تھی،سنت رسول پر عمل  کا جذبہ کمزور سے کمزور تر ہوچکاتھا۔من حیث القوم دین سے دوری   کی بنا پر بدعملی  اپنے عروج پر آچکی تھی ،اسلامی لبادہ کاتشخص پامال کیا جارہاتھا، معاشرتی بےراہ روی  عام مسلمانوں میں اپنے پنچے  مضبوطی سے کس رہی تھی ،مساجد  ومدرسہ کا نظام بہت زیادہ ناگفتہ بہ ہوچکا تھا،بیسویں صدی کے اسی (80) کی دھائی تھی جب نوجوانوں کو دین سے دور کرنے کےلئے نت نئے ہھتکنڈے  استعمال ہورہے تھے۔ان حالات میں پھر کسی ایسے  مرد قلند  کی ضرورت تھی  جو اپنے اسلاف کی یاد گار بن کر امت کی اصلاح کرسکے ۔چنانچہ   اللہ رب العزت  نے اس امت کی اصلاح کےلئے ایک ایسے بطل جلیل کو میدان عمل   میں اتارا  جس نے اپنے پیر ومرشد غوث اعظم   رحمۃ اللہ  علیہ   کے مشن  کو پھر سے زندہ کیا  اور سلسلہ قادریت      کی  عظمت رفتہ  کے امین بن کر امت کی اصلاح  کی باگ دوڑ سنبھالی۔ وہ بطل جلیل، وہ یاد گار اسلاف، وہ مرشد دوران ، وہ مرد آہن ، وہ عالم  باعمل، وہ پیکر اخلاص ،تقوی وللہیت   کی تصویر، فیضان غوثیت   کا پرتو ، ، امام احمد رضا    کے مشرب عشق  ومحبت کا میخوار، امت کا مصلح وخدمتگار شیخ طریقت امیر اہلسنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری ضیائی    دامت برکاتہم العالیہ ہیں جو  بیسوی صدی کے آخری میں شہنشاہ ولادیت حضور غوث صمدانی   شیخ عبد القادر الجیلانی   کے مرید باصفا بن کر  امر بالمعروف  ونھی  عن المنکر   کی ذمہ داری   کے فرائض سرانجام دینے کےلئے میدان عمل میں نکلے اور ایک ایسی سنتوں بھری تحریک ’’دعوت اسلامی‘‘ کی داغ بیل ڈالی    جس کے دور رس اثرات   دنیا کے  ایک سو پچاس سے زائد ممالک میں نظر آرہے ہیں ۔امیر دعوت اسلامی  کی  اس عظیم تحریک کے کارناموں اور بانی دعوت اسلامی کے عظیم مشن کو زیب قرطاس سے پہلے آپ کی شخصیت کا مختصر تعارف پیش خدمت کیا جاتاہے۔

خاندانی پس منظر:

بانی دعوت اسلامی ،امیر اہلسنت  حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری   دامت برکاتہم العالیہ کے آباء اجدا د  ہند   کی ریاست گجرات کے گاؤں کُتیانہ(  جوناگڑھ )  میں رہتے تھے  آپ کے دادا  جناب عبد الرحیم   رحمۃ اللہ علیہ کی پارسائی و نیک نامی  کاشہرہ  پورے کتیانہ میں مشہور تھا ۔قیام پاکستان کے  بعد  آپ کے   والدین نے پاکستان کی طرف ہجرت کی اور سندھ کے مشہور شہر حیدر آباد میں   آباد ہوئے پھر کچھ عرصہ بعد  پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں  مستقل سکونت پزیر  ہوئے۔(ماخوذ از تعارف امیر اہلسنت، ص ۱۰،۱۱)

مولانا محمد الیاس قادر ی  کے والد جناب حاجی عبد  الرحمن قادری اپنے والد عبد الرحیم کی طرح نیک ، صالح ، شریعت پر کاربند،متقی تھے، نگاہیں نیچی کئے چلتے ،سادہ مزاج  اور خداترس انسان تھے،دنیاوی حرص وہوس،  کثرت مال ودولت   کی خواہش  کا دور سے بھی واسطہ نہ تھا  ۔بلکہ کو لمبو   میں  ایک میمن مسجد  کے انتظامات کی ذمہ  داری بھی آپ کے ذمہ تھی ۔ آپ کے والد محترم کو احادیث رسول زبانی بھی یاد تھیں نیز قصیدۂ غوثیہ   بھی بہت پڑھتے ہیں حتی کہ آپ کے بارے میں آتا ہےکہ جب آپ قصیدۂ غوثیہ جس چارپائی پر بیٹھ کر  پڑھتے تو  وہ چارپائی زمین سے  بلند ہوجاتی تھی۔(ماخوذ از تعارف امیر اہلسنت، ص ۱۱)

ولادت امیر اہلسنت :

حاجی عبد الرحمن  رحمۃ اللہ علیہ   کے آنگن میں خوشیاں  کا سماں باندھاہواتھا رمضان المبارک کی پرکیف ساعتیں تھیں ان  پاکیزہ لمحات میں    ایک ایسے بچے کی ولادت کی خوشخبری سنائی جاتی ہے جسے      شیخ طریقت، اَمیراَہلسنّت ،بانئ دعوتِ اسلامی، حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادِری رَضَوی دامت برکاتہم العالیہ   کہتے ہیں ۔آپ کی ولادت   مبارکہ ۲۶ رَمَضانُ المبارَک  ۱۳۶۹؁ھ بمطابق  ۱۹۵۰؁ء میں پاکستان کے مشہور شہر باب المدینہ کراچی میں ہوئی۔

تعلیم وتربیت:

بچپن ہی سے  مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کو گھر میں دینی ماحول ملا ،والدہ ماجدہ  کی خصوصی تربیت  آپ کے نصیب میں آئی۔ چونکہ  آپ  کی ولادت کے تیسرے مہینے بعدذوالحجۃ الحرام1370ھ  میں  حج کے دوران جب منی میں سخت لو چلنے کی وجہ سے بہت سے حجاج فوت ہوگئے  آپ کے والد کا بھی دوران حج انتقال ہوگیا تھا،اسیلئے آپ کی تربیت کی ساری ذمہ داری آپ کی والدہ ماجدہ نے اٹھائی، اگرچہ آپ پدرانہ شفقت سے محروم رہے لیکن والد گرامی کا روحانی فیض آپ کو ملتارہا اور یہ ہی وجہ ہے کہ آپ کی تربیت کے خمیر میں  عبادات کا ذوق، مطالعہ کا شوق، علم کی لگن ، عمل کی جستجو والد گرامی مرحوم   کے نالہ ہائے نیم شبی  اور مناجات الٰہی  کے ثمرات سے نصیب ہوئی۔

والدہ ماجدہ   کی تربیت کے اثرات:

بچپن   کے ایام  بڑے  بے فکری کے ہوتے ہیں نہ مستقبل کی فکر، نہ کسی غم کا اندیشہ ،دنیا کی تعریفات سےسروکارنہ خوشی غمی کا احساس بس کھیل کود اور بچپن کی زندگی کے خوش کن ایام ۔مگر دیگر بچوں کی طرح الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کے بچپن کے ایام ایسے نہیں گزرے جس طرح اور بچوں کے دن گزرتے ہیں بلکہ آپ کی تہجد گزار والدہ نے آپ کےاندر خوف خدا اور عشق رسول  کے جام انڈیلے ، دینی تربیت کی، مطالعہ کا شوق دلایا،بڑوں کے ادب کی تربیت دی، محنت سے کمانے کا درس دیا، ہمیشہ لقمہ حلال   کھانے کا ذہن دیا، غریبی کے باوجودکبھی کسی کے آگے دست سوال دراز کرنے سے منع کیا، اللہ کےدیئے ہوئے تھوڑے رزق پر قناعت کرنے کی تلقین کی۔

یہ وجہ ہے کہ والدہ ماجدہ کی تربیت کے اثرات سے متصف ہوکرامیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ نے  جب عالم شباب میں قدم رکھا تو  علوم دینیہ   کی بنیادی تعلیمات   سے آراستہ ہوچکے تھے،آپ نے اپنی جوانی کے دن علما وفقہاکی صحبت وسنگت میں بسرکئے ، مطالعہ کے شوق نے کتب بینی کی ایسی عادت ڈالی کہ جب جب فراغت نصیب ہوئی مطالعہ کتب میں مصروف ہوجاتے۔آپ کے بارے میں آتاہےکہ آپ نے علم   کی تحصیل دوذرائع سے حاصل کی ایک علماکی صحبت اور دوسری  دینی کتابوں کا مطالعہ۔تقریبا  بائیس  (22)سال   آپ نے  وقار الفتاوی کے مصنف ، عالم باعمل مفتی پاکستان جناب حضرت علامہ مفتی محمد وقار الدین قادری  کی صحبت میں گزارے ،اکتساب فیض کیا، علم کی باریکیاں سیکھیں ،شرعی مسئلے مسائل پر عبور حاصل کیا،عالم بنانے والے کتاب ، قدیم فقہ وفتاوی   کے مطالعہ کا نچوڑ ، مستند فتاوی کا مجمومہ بہار شریعت  کے مطالعہ کا جنونی شوق بھی مفتی وقار الدین  رحمہ اللہ علیہ کی صحبت سے ملا۔مفتی پاکستان  جناب مفتی محمد وقار الدین  رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو ناصرف علم کی ردا عطا کی بلکہ روحانیت کے فیض سےبھی مالامال کیا اور خرقہ خلافت واجازت سے نواز کر روحانی فیض کاامین بھی بنایا۔

مولانا محمد الیاس قادری کے علمی ماخذ  :

صحبتِ صالح تُرا صالح کند(اچھی صحبت بندے کونیک بنادیتی ہے) کے مصداق امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ  کو بچپن ہی سے نیک اورصالح لوگوں کی صحبت نصیب ہوئی، آپ   نے علمااور صلحا کی سنگت میں ہی عافیت جانی اوران  ہی  کے ساتھ جڑے رہے جس کا نتیجہ  یہ نکلا کہ  آپ کے اندر علم دین کا  بے پایاں شوق پیدا ہوگیااور اولیا کی صحبت سے اللہ کے رنگ میں رنگ گئے،  علم شریعت کے ساتھ تصوف  کا درس بھی حجۃ الاسلام   امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں  کے مطالعہ سے لیا۔ امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ نے  مہلکات ومنجیات یعنی انسانی کو ہلاکت میں ڈالنے والی چیزوں کا علم اور انسا ن کو نجات دلانے والی چیزوں کا علم     بھی خاص طور پر امام غزالی کی کتابوں کے کثرت مطالعہ سے حاصل کیا۔بادی النظر آپ  کے علم تصوف  کے اکتساب  میں احیاء العلوم   کے مطالعہ کا بہت بڑاحصہ شامل ہے۔غوث پاک رحمۃ اللہ  علیہ  سے والہانہ عقیدت محبت    کی بدولت  آپ نے روحانی فیض  غوث الوری   کے آستانہ قادریت  سے حاصل کیا ،علم شریعت کے مسائل پر دسترس   بہار شریعت کے کثرت مطالعہ سےملی، عقائد ونظریات کی پختگی ،مسلک حق پر استقامت، عظمت رسالت، شان صحابہ، فیضان اولیاء ،محبت اہلبیت،  عشق رسول کےجام، محبت رسول کا والہانہ جذبہ ، سنت رسول  کااوڑنا بچھونا،علم کے پیچیدہ مسائل کا حل  امام وقت ، امام اہلسنت مجدد  دین وملت  الشا ہ امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ  علیہ    کی کتابوں بالخصوص  علوم اسلامیہ   دینیہ کے انسائیکلوپیڈیا ’’  فتاویٰ رضویہ‘‘  کے مطالعہ سے نصیب ہوا،گویا بالواسطہ امام وقت نے امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کی دینی تربیت فرمائی  ، مسلک حق کا ایسا وفادار بنایا  ، رضوی علم کےایسے جام پلائے کہ  اعلیحضرت     کی دینی تشریحات وتعلیمات   پر آپ کو عین الیقین نصیب ہوگیا۔ یوں آپ    کی تعلیم وتربیت ، حصول علم   کے ماخذ میں مذکورہ بزرگوں  کے روحانی فیض اور کتابوں کا بہت بڑا عمل دخل ہے۔

انقلاب آفریں تبلیغی سفرکا آغاز:

خدمت دین   کا جذبہ مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ          کو جوانی سے پہلے ہی مل چکا تھاپھر علما کی صحبت نے بھی آپ کے اندر دینی تعلیمات کو عام کرنے کا شوق پیدا کردیاتھا اسیلئے آپ کاغذی بازار کراچی میں واقع نور مسجد میں درس  دیا کرتے تھے لوگوں کو بہارشریعت سے دینی مسائل بتایا کرتے تھے،چونکہ مسجد کی امامت کی ذمہ داری  بھی  آپ پر تھی لوگوں سے پانچوں نمازوں میں ملاقات کا سلسلہ بھی تھا تو آپ نے   اس موقع کو صرف ملاقات حال چال پوچھنے میں نہیں  ضائع کیا بلکہ جب نماز سے فارغ ہوتے دینی مسائل بیان کرنا شروع کردیتے۔یہ وہ وقت تھا جب  شہر کراچی سیاسی عصبیت کی بھینٹ چڑھ چکاتھا،فیشن کازمانہ اپنے نت نئے انداز میں نوجوان کومتاثر کررہا تھا ، مسجد یں  صرف نماز جمعہ کی حد تک آباد نظر آتی تھیں جبکہ عام نمازوں  کی ادائیگی کی طرف لوگوں کا رجحان   کم  ہوتا جارہاتھا،مادیت کے نشے میں مست  کاروباری حضرات، تجارت پیشہ  تاجر برادری، صعنتکار،پروفیشنل حضرات میں بالخصوص دینی رجحان مفقود ہوچکا تھا، عوام الناس    کی حالت بیان سے باہر ہوتی جارہی تھی۔سنت رسول پر عمل  تو دور کی بات فرائض کی ادائیگی  بھی مشکل سے شکل تر بنائی جارہی تھی۔ان حالات  میں  نور مسجد کے امام جناب مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ لوگوں کو دین  کی طرف دعوت دینے کےلئے انفرادی کوششوں  کرتے ہیں ،ایک  ایک فرد سے ملاقات کرکے سنت رسول پر عمل کرنا ذہن دیتے ہیں ۔آپ کے دل میں امت کی اصلاح کی تڑپ آپ کو بے چین کئے رکھتی تھی، نما زکے بعد صرف ایک ہی کام ہوتا کہ لوگوں کو دین کی طرف بلایاجائے یوں آپ نے انفرادی طور پر ہی آپ نے تبلیغی سفر کا آغاز کیاپھر بعد میں ایک جمیعت کی صورت میں منصہ شہود پر رشد وہدایت کا آفتاب بن کر چمکے ۔

دعوت اسلامی      کا تعارف:

مولانا محمد الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کی زندگی  کاتبلیغی سفر نور مسجد کاغذی بازار کراچی  سے  ہوچکا تھا ابتدا انفرادی  طور پر لوگوں کو دین کی دعوت دیتے رہے ۔ فردا فردا لوگوں  کے پاس جاکر سنت رسول کی اہمیت  بتاتے ، امت کا اپنے آقا صلى الله عليه وسلم سے ٹوٹا ہوارشتہ استوار کرنے کےلئے کوششیں کرتے  ۔چنانچہ 1981 میں  باقاعدہ  تبلیغی سفر کو مضبوط نظام کے تحت چلانے کےلئے  سنتوں بھری تحریک  ’’ دعوت اسلامی ‘‘   کا آغاز کیااور اپنے مضبوط ارادوں کے ساتھ میدان عمل میں   دین کی دعوت  دینےکےلئے کمربستہ ہوئے۔اپنی تحریک کا  نصب العین اور مشن   ’’ مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے‘‘  مقرر کیا اس  مقصد کے حصول کےلئے ایک ایک فرد کے پاس جاکر حضورعلیہ الصلاۃ  وا لسلام کی پیاری پیاری سنتوں کا درس دیتے۔ایک امام مسجدامت کے اجتماعی مفاد کےخاطر اپنے دائرہ کار کو وسعت دینےکےلئے  آگے بڑھتا ہے  کہ ایک ایک فرد کو دین  پر عمل کی دعوت دی جاتی ہے، کوئی مزاق اڑارہا ہے، کوئی بات سن کر ہنس کر ٹرخادیتا ہےلیکن یہ مرد میدان اپنی کوششوں کو جاری رکھتا ہے ، سلسلہ بڑھتا جاتا ہے  فرد سے فرد جڑ کر  اجتماعی ماحول میں تبلیغ کا موقع نصیب ہوتاہے۔حضور کی سنتوں  کے سانچے میں ڈھالنے کےلئے اجتماعی ماحول   میں  لوگوں کو درس  دینا پھر رات کی تاریکیوں میں  ایک منھج پر لانے کےلئے تبلیغی نصاب ترتیب دینا، رات کے پچھلے پہر میں  امت کی خیر خواہی کےلئے گریہ وآہ زاری کرنا، صبح فجر کے لئے لوگوں کو جگانا، نماز کےبعد درس دینا، اشراق وچاشت تک  مسجد میں رہ کر یاد الہی میں مصروف رہنا ،پھر دن میں لوگوں کے پاس جاکر دعوت اسلامی کا پیغام پہنچانا ،دعوت اسلامی  کو متعارف کروانا، دعوت اسلامی کے مشن  کےلئے ذہن سازی کرنا، کبھی کسی علاقہ میں کبھی کسی شہر میں ،کبھی ایک صوبہ سے دوسرے صوبہ میں  سنت رسول کو عام کرنےکےلئے دعوت اسلامی کے پلیٹ فار م  پر لوگوں کو جمع کرنا۔یوں یہ شخص تنہا اپنا سفر  اپنے رب کریم اور اس کے رسول محتشم  کے عشق ومحبت  کا چراغ سینے میں جلائے اپنی درد بھری آواز کےساتھ دعوت اسلامی کے پلیٹ فارم سے  لوگوں کو  دیتا رہا  لوگ آتے رہے کارواں سے کارواں بنتا گیا  یوں دعوت اسلامی  ایک  عالمگیر روحانی علمی  سنتوں بھری غیرسیاسی تحریک  کے طور پر ظاہر ہوئی ۔

تبلیغی مرکز فیضان مدینہ   کا سنگ بنیاد:

عزم وہمت کا پیکر  اللہ اور اس کے رسول   کی محبت  میں سرشار یہ بندہ حضور علیہ  الصلاۃ  والسلام کے دین کی طرف لوگوں کے بلانےکےلئے علاقائی حدود سے نکل کے دوسرے علاقوں کی مساجد میں جاکر درس کاسلسلہ وسیع کرتاہے ۔سادہ عام فہم انداز تبلیغ کے ساتھ فقط  اللہ اور اس کے رسول کی باتیں، حضور کی سنتوں کا درس، دنیا کی بے ثباتی اورآخرت کی کامیابی  ، خوف خدا اور عشق رسول  جیسے موضوعات  کے ضمن میں مدنی آقا کی سنتوں کے احیا کی کوشش رنگ لاتی ہیں   ۔تاثیر پیدا کرنے والی ذات رب ذوالجلال اپنے بندے کی پرخلوص کوشش کو  شرف قبولیت  سے نوازتا ہے ۔دعو ت اسلامی کی دھومیں مچنا شروع ہوتی ہے۔ ہفتہ وار سنتوں  بھرا اجتماع کا آغاز ، توبہ واستغفار  ، آہ وفغاں   ، شرمندگی وندامت    ،غفلت میں گزری ہوئی زندگی پر پشیمانی   اجتماعی ماحول کو   ایک نیا رخ دیتی ہے ۔ایک جمعرات گزرتی نہیں کہ دوسری کے انتظارمیں  آنسو تھمتے نہیں۔اجتماع میں  کثرت عوام  سے تل دھرے کی جگہ میں نہیں بچتی  پھر فیصلہ ہوتا ہے کہ ایک باقاعدہ اجتماع گاہ   مختص کیا جائے ۔ذرا تصور میں لایئے حضور غوث اعظم کے مبارک زمانہ کا جب آپ نے تبلیغ کا آغاز کیا  اور لوگوں کو دین کی طرف بلایا،تھوڑے عرصے میں ہی  آپ کی تبلیغ دین  کی کوششوں  سے متاثر ہوکر لوگوں  کا ہجوم  ہوگیا تو آپ نے بھی باب ازج کے مقام پر بڑے میدان میں  لوگوں سے بیان وخطاب کرنے کا فیصلہ کیا ۔یہ دعوت اسلامی بھی اس فیضان غوث الوری کا فیضان  تھی کہ جس کے بانی نے اپنے شیخ  کی ارادت  و مریدی میں  متوکلا علی اللہ ہوکر سفر تبلیغ کا آغاز کیا اور لوگوں نے دعوت پر لبیک کہا تو آپ کے من موہنے انداز تبلیغ سے متاثرہوکر عوام الناس کا لشکرجمع ہوگیا پھر آپ نے بھی اپنے شیخ کے نقش قدم کوخضراراہ بن کر  کراچی  میں عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کی بنیاد رکھی اور  امت کو   دین  کی تبلیغ کا سب سے بڑا مرکز فیضان مدینہ عطاکیا۔   اور یوں دعوت اسلامی  کی دین  کی تبلیغ کا دائر ہ کار  ملک پاکستان کی سرحدوں سے نکل کر  دیار غیر  تک پہنچ گیااور چالیس سال بھی گزرے نہ تھے کہ دنیا کے 150   سے زائد ممالک میں  عالمی مدنی مرکز کے تحت سینکڑوں مدنی  مراکز قائم ہوگئے۔

اللہ کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں میں            اے دعوتِ اسلامی تیری دھوم مچی ہو

افراد سازی وکردار سازی :

مولانا الیاس قادر ی دامت برکاتہم العالیہ نے اپنے تنظیمی مقصد کو  دنیاکے سامنے کچھ اس طرح متعارف کروایاکہ’’ مجھے اپنی اور ساری دنیا کےلوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے‘‘  اس مقصد کو پیش نظر رکھ کر دعوت اسلامی کے امیر جناب مولانا الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ  کی تبلیغی جدوجہد  کو دیکھیں تو  دو باتیں اہم نظر آتی ہیں ایک افرادسازی جیسے شخصیت سازی بھی کہتے  ہیں اوردوسری  کردار سازی۔اول الذکر  مولانا  الیاس قادری عفی عنہ کے پیش کردہ مقصد  کا پہلا جزء ہے جو اپنی انفرادی نوعیت کے لحاظ سے بہت اہم ہے ۔آغاز اسلام میں بھی حضور بنی رحمت دو عالم  صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسلام کے پیغام  کو لوگوں تک پہنچایا تو پہلے ایک  ایک فرد کو پھر خاندان والوں کو، پھر روساؤں کوپھر  معاشرتی طبقہ کے  ہر فرد کو دین کا پیغام دیا۔ امیر اہلسنت  نے بھی اسی منھج نبوی کے اپناتے ہوئے افراد سازی کی،انفرادی توجہ  سے لوگوں کو دین پر عمل  کا جذبہ دیا،سنت رسول کے سانچے میں ڈھالنے کےلئے عملی کردار پیش کیا ،دل سے لومۃ    لائم   کا خوف نکالایوں افراد سازی سے کردارسازی  کے مرحلہ تک  آپ  نے ایک خاصی تعداد میں  لوگوں  کو سنت رسول   کا پیکر بنادیا۔پہلے خود عمل کی تصویر بن کر لوگو ں کودکھایا، دل کی طرف جانے والی شیطانی راہ کو روزے   کے ساتھ مسدود کیا ، ہونٹوں پر خاموشی کی  مہر لگائی، بولناہے توصرف دین کی دعوت کے پیغام کےلئے بولنا ہے ۔کسی سے الجھنا نہیں کسی کو تکلیف دینا نہیں ،بس سوئے منزل رواں افراد سازی اور کردار سازی کے ذریعے دعوت اسلامی  کی محبت دلوں میں ڈالنی ہےاور پھر دنیا نے دیکھاکہ اس  مرد باصفا کی کوششوں سے  کردار کی دنیا میں دعوت اسلامی نے ایک نیا ماحول متعارف کروایا۔

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں

تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

امیر اہلسنت  کی تعلیمات  کے اثرات اور معاشرتی تبدیلیاں:

1981 میں مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ نے اپنی تبلیغی زندگی  کو تنظیم کے سانچے میں ڈھال کر’’ دعوت اسلامی ‘‘  کے پیغام کو معاشرے کے مختلف طبقات میں  پہنچانے کےلئے افراد معاشرہ کا تعین کیا اورآپ نے  بگڑے ہوئے معاشرتی  ماحول  میں اصلاحی  تدبیر کچھ یوں کی کہ پہلے یک ایک فرد کو حضور نبی  رحمت دو عالم صلى الله عليه وسلم کی سنت   پر عمل کرنے کا ذہن دیا ،حضو  ر علیہ الصلاۃ و السلام کی سنتوں کو زندہ کرنے کےلئے پہلے خود ان سنتوں پر حقیقی عمل کیا، معاشرے میں عملی کردار پیش کرکے لوگوں  کو سنت رسول کی طرف رغبت دلائی،کاروباری حضرات کو اسلامی تجارت کے اصول سیکھا کر سنت رسول کے مطابق کاروبارکرنے کا ذہن دیا اور ساتھ ہی باعمل مسلمان بننے کا ذہن دیا، بے نمازیوں کو نماز سیکھائی اور  مسجد میں باجماعت نماز پڑھنےکا درس دیا، پروفیشنل حضرات کی پیشہ ورانہ زندگی  کو شریعت کے دائرہ کار میں لاکر ملازمت کے اصول بتائے اور شریعت پر عمل پیرا ہوکر حلال روزی کمانے کاسبق دیا،مزدور کو اجرت  حلال کرنے کے لئے کام کاج کاڈھنگ سیکھایا،علم سے وابستہ حضرات کو  علم کی قدرکرنے اور اپنے فرائض منصبی کو احسن انداز میں ادا کرنے کےلئے ترغیب دلائی، معاشرے کےلچھے لفنگے  افراد کی اصلاح کی، انہیں اسلام کی روشن تعلیمات سے آگاہی دی، برائی سے روکا اور اچھائی کا خوگر بنایا،دین بیزار طبقہ کو دین کی اہمیت    سے باخبر کیا ،قتل وغارت ، دنگا فساد میں ملوث افراد کو آخرت کے انجا م سے ڈرایاان کی اصلاح کر کے اچھاانسان بنایا،فیشن پرستوں کو رسول اللہ کی سنتوں کا   عامل بنایا، مردہ دل افراد کو خوف خدا اور عشق رسول  سے زندہ کیا، فنکاروں  کی اصلاح کی، انہیں  اسلامی کردار   میں ڈھالا،گلوکاروں کو    مدحت ونعت رسول  کا عادی بنایا،معاشرتی برائیوں اور اس کے خوفناک انجام  سے  پردہ اٹھاکر   اچھائیوں  کی راہ دکھائی، نیکیوں کا راستہ دکھلایا،دنیا پرستوں کو دنیا کے بے ثباتی  اور اس کے برے انجام کے بارے میں  متنبہ کرکے فکر آخرت  دی ۔الغرض معاشرے  کے ہر طبقہ کو  ایمان  کی حفاظت ، فکر آخرت، اعمال صالحہ کی رغبت  ، برائیوں کے برے انجام ،نیکیوں کی جزا، محشر  کے ہولناک مناظر اوراس سے نجات کی راہ ا ور تقوی  و پرہیزگار   کے ساتھ زندگی گزارنے   کی تلقین  کی۔آپ کی تبلیغی مساعی جمیلہ سے معاشرہ میں جو جو تبدیلیاں آئیں  اس کے اثرات   کا مشاہدہ کرنے کےلئے دعوت اسلامی کے ماحول سے وابستہ افرا د  کا جائز لیا جاسکتا ہے،معاشرہ کے ہرطبقہ  کے  اصلاح پزیر لوگ اس ماحول  میں نظر آئیں گے۔ درحقیقت امیر اہلسنت کی تعلیمات کے اثرات    کا ہی نتیجہ  ہے کہ دعوت اسلامی    معاشرے کے    اسّی (80) سے زائد شعبہ جات میں  دین کی تعلیمات   اور شریعت کے اصو ل   حقیقی طور پر لاگو ہوچکے ہیں اور یہ تمام شعبہ جات دن رات خدمت دین میں مصروف عمل ہیں ۔

اسلام کے نظام تعلیم  کی ترویج واشاعت:

امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کی دین   کی دعوت  سے متاثر ہونے والوں  کو تعداد سینکڑوں سے نکل  کر ہزاروں بلکہ لاکھوں میں پہنچ گئی تھی  ابھی فقط افراد ِملت   کاہجوم ہوتاتھا، فیضان مدینہ کی رونقیں  آباد ہورہی تھیں ، لوگ جوگ در جوگ  دین کی پیاس بجھانے کےلئے ہر جمعرات فیضان مدینہ اجتماع میں آتے تھے، ایک ہفتہ کا درس لیکر پھر پورا ہفتہ حضو ر کی ایک ایک سنتوں پر عمل کرنےکی  کوششیں کرتے ۔

ایک ایک فرد پر انفرادی توجہ، ذہن سازی، کردارسازی، غم کو دھونا، دکھ کو مٹانا، کسی کو کھانے کے آداب بتارہے ہیں تو کسی کو پانی پینےکی سنتیں ،توکسی کو ملنے ملانے  کا طورطریقہ،کسی کو مجلس کے آداب یوں ایک فرد اور سامنے ہزاروں کا مجمع  سب کو اپنی نگاہ  سے نوازرہے ہیں۔چنانچہ مرد قلند ر  کی  کوششوں سے  جب دعوت اسلامی  کے پلیٹ فارم پر تربیت کا باقاعدہ  نظام قائم ہوگیا اس دور اندیش  ،مرد میدان   ، سنت رسول کےپیکر  امیر اہلسنت نے اپنے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات    عملی طور پر لوگوں تک پہنچانے   کےلئے باقاعدہ تعلیمی انسٹیٹوٹ   جامعہ المدینہ قائم کیااور لوگوں کو علم دین مکمل طور پر سیکھنے   کےلئے ترغیب دلائی، علم کی اہمیت کااجاگرکیا ،علما کی فضیلت پر بیانات کئے،لوح  وقلم کی پرورش میں عملی قدم اٹھایا ، ایک ایسا نظام تعلیم لوگوں میں متعارف کروایا جہاں  تحصیل علم کے ساتھ عمل  کی رغبت بھی دلائی گئی، صفہ کے طرز  پر ایک ایسا نظام تربیت قائم کیا جہا ں صبح علم دین کی کلاسسز  لگاجارہی ہیں تو شام میں  جامعۃ المدینہ میں پڑھنے پڑھانے والے  علم کی شمع دوسروں کے سینوں میں جلالنے کےلئے چوک درس میں فضیلت علم  پر درس  دے رہے ہوتے ہیں۔

یوں حضرت علامہ الیاس قادری عفی عنہ نے امت کودعوت اسلامی کے پلیٹ فارم پرعالمی سطح کا  تعلیمی نظا م   دیا  تاکہ ہر کوئی   اس  مرکز علم وعرفاں سے  قرآن وحدیث ، فقہ وفتاوی،  عقائد ونظریات، مروجہ علوم اسلامیہ  کا کورس درس نظامی  مکمل کرکے  معاشرے   کی تاریکی دور کرسکے ،ایک باعمل عالم بن کر جہالت کے اندھیروں میں علم کی شمع روشن کرسکے۔امیر اہلسنت حضرت پیر الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ  کا یہ انسٹیٹوٹ جامعۃ المدینہ   اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک میں ہزاروں طلبا کے سینوں میں   علم کے جام انڈیل رہا ہے ،بغیر کسی فیس  کے طلبا کو رہائش، خوراک ، ضرورت مند وں کو لباس، ادویات، درس کی کتابیں ، کاپیاں ، قلم وادوات   فراہم کررہا ہے۔

مدرسۃ المدینہ قرآن انسٹیٹوٹ کا قیام:

عالمی سطح پر علم دین   اور تعلیمات اسلام   کی آبیاری کے بعد حضرت علامہ ابو بلال الیاس قادری  نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث  مبارک ’’ خَیْرُکُمْ مَّنْ تَعَلَّمَ الْـقُرْاٰنَ وَعَلَّمَهٗ یعنی تم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے ۔ ‘‘(بخاری ،  ص۱۲۹۹ ،  حدیث : ۵۰۲۷) پر عمل کرتے ہوئے امت کو مدرسۃ المدینہ  کے نام سے قرآن انسٹیٹوٹ کا تحفہ دیا۔خدمت قرآن کا یہ وہ ادارہ ہے جہاں  سے لاکھوں کے تعداد میں  لوگ قرآن پاک کے درست مخارج   کے ساتھ  پڑھنا سیکھتے ہیں۔اسلام  کا حسن یہ ہےکہ وہ اپنے ماننے والوں کو ایسی بات کادرس دیتا ہےکہ وہ جو اپنے لئے پسند کریں وہی  دوسروں کے لئے پسند کریں۔امیر  اہلسنت  بھی ایک اچھے خوش الحان قاری کی طرح قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو آپ نے بھی  اسلامی تعلیمات  کے مطابق  جو اپنے لئے پسند کیا اسی کا امت کو درس دیا ہے اور  باقاعدہ  مدرسۃا لمدینہ  یعنی  قرآن انسٹیٹوٹ کا پوری دنیا میں جال بچھایا،لاکھوں کی تعداد میں بچے بچیاں ،مرد وخواتین  ،جوان   وبوڑھے سبھی اس  قرآن انسٹیٹوٹ  سے ناظرہ قرآن اور حفظ قرآن  کی لازوال دولت سے مالا مال ہورہے ہیں۔

دعوت اسلامی میں شورائی نظام کا قیام:

مفکر اسلام،  مصلح امت حضرت امیر اہلسنت    نے دعوت اسلامی    کو  بڑی محنت  جانفشانی ، بلکہ اپنے خون پیسنے سے سینچا ، دعوت اسلامی کے پیغام کو امت تک پہنچانے کےلئے بڑی تگ ودو کی،  مخالفت کے منہ زور طوفانوں  کا اپنی حسن تدبیر سے مقابلہ کیا، معترض کے اعتراض کے جواب  دیئے بغیر صرف اپنے مقصد کی  طرف توجہ مبذول کی اور فقط دعوت اسلامی   کے دینی کاموں کو بہتر سے بہتر انداز میں کرنے کےلئے افراد کوتیارکیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بانی دعوت اسلامی کی کوششوں سے   معاشرے میں دینی انقلاب آیا، لوگوں کی سوچ بدلی اور احیائے سنت کی اس عالمگیر تحریک   سے  ہنرمند، باصلاحیت، مخلص ، تقوی شعار، عاشقان رسول کا ایک ایسا جتھہ  تیار ہوا  جس  نے اپنے شیخ کے ارشادات  کو سینے سے لگا کر ملک پاکستان اور پاکستان سے باہر جہاں جہاں عاشقان رسول بستے تھے وہاں  تک پیغام شیخ طریقت امیراہلسنت کو پہنچایا۔دعوت اسلامی  کو روز افزوں   ترقی ملنا شروع ہوگئی،شہر شہر دعوت اسلامی  کی شہرت کا  ڈنکا بجنے  لگا،لوگ امیر اہلسنت کے بیانات سے متاثر ہو کر دعوت اسلامی کے مشن سے جڑنے لگ گئے،سنتوں کی بہاریں   چھانے لگیں ،سر عماموں سے سج گئے ،ڈاڑھی فیش پرستوں کی زینت بن گئی، فاخرہ لباس کی جگہ سفید لباس نے لےلی۔یوں دعوت اسلامی  اپنی منزل کی جانب بڑھنا شروع ہوگئی مزیدکاموں میں بہتری کےلئے اس مرد باصفا، عاشق صادق    کے مرید خاص نے مشورہ دیا کہ دعوت اسلامی  میں ایک شورائی نظام قائم کیا جائے اور تاکہ تنظیمی کاموں کو بہتر سے بہتر انداز میں  کرنے کی کوششیں کی جائیں۔ پھر خود اس نباض عصر  پیر الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کی دور رس  نگاہیں دعوت اسلامی کے روشن مستقبل کی طرف مرکوز تھیں  اسیلئے آپ نے شورائی نظام کو چلانے کےلئے ایسے افراد کا انتخاب کیاجن میں حب جاہ ، منصب کی تمنا ، حرص وہوس ،دنیاوی اغراض، لالچ، ذاتی مفادات کے حصول کی کوششیں کرنا، معاصرانہ چشمک جیسے امراض خبیثہ  کا  شائبہ تک نہ ہو۔سنت رسول کاپیکر بن کر تنظیمی کا موں کو شریعت کے دائرہ کار میں رہ کر خوش اسلوبی سے چلاسکیں۔چنانچہ  امیر اہلسنت  نے  دعوت اسلامی کے وسیع مفاد میں ایسے افراد پر مشتمل مرکزی مجلس شوری بنائی جو بانی  دعوت اسلامی    کی انتھک  محنتوں   کے تراشیدہ ہیرے تھے۔پھر اس مرکزی مجلس شوری کے تحت تنظیمی کاموں کی تقسیم کاری کا باقاعدہ سلسلہ شروع کیا اور یوں تاحال اس مرکزی مجلس شوری کے زیر انتظام دعوت اسلامی کے 80 سے زائد شعبہ جات قائم کئے گے۔اس وقت دعوت اسلامی کی مرکزی مجلس شوری کے چیف ایگزیکٹوو نگران  جناب  حاجی عمران عطاری ہیں۔حاجی عمران عطاری درحقیقت امیر اہلسنت کا وہ مدنی تنظیمی  پھول ہے جس کی خوشبو  اس وقت  اپنے مرشدکے فیض سے معطر ہوکر 150 سے زائد ممالک میں مہک رہی ہے۔حاجی عمران امیراہلسنت کا وہ تراشیدہ نگینہ ہے جس کی چمک دمک   دعوت اسلامی کے تنظیمی ڈھانچہ میں آب وتاب سے چمک رہی ہے۔حاجی عمران ایک زیرک ،حالات حاضرہ پر گہری نظر رکھنے والے وہ مذہبی رہنما، دینی سربراہ   صوفی باصفا مرید باوفا ہیں جنہوں نے اپنے شیخ کے فیض کو ہرکس وعام تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

بانی دعوت اسلامی کی تبلیغی مساعیٔ جمیلہ کے بین الاقوامی اثرات:

اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے پتاچلتاہے کہ جب جب امت  میں بگاڑ آیا تب تب  اللہ تعالی نے اپنے کسی بندے کے ذریعے امت کی کشتی کوساحل مراد کیا،خالق کائنات نےاپنے حبیب مکرم کی امت کو ہر دور میں کسی مسیحا  کے ذریعے  نجا ت دی  اورجب وہ بندہ منصب رشد وہدایت پر فائز کیاجاتا تو قدرت الٰہی کی فیاضانہ عادت اس بندے کو وہ تمام صلاحیتوں سے نوازتی ہے  جس کو اس کو ضرورت پڑ سکتی ہے۔چنانچہ موجوہ زمانہ میں مولانا الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ  کا وجود مسعود بھی  امت کے لئے اللہ جل مجدہ  کی  ایک نعمت غیر مترقبہ ہے ،آپ وہ نابغہ روزگاز ہستی ہیں جن کی فکر کی بلندیاں  آسمان کو چھوتی نظر آتی ہیں،آپ وہ بالغ النظر ہستی ہیں جن کو دور بین نگاہیں دنیا کے کونے کونے میں بسنے والے اہل ایمان    کی بہلائی کے لئے بے چین رہتی ہے، آپ  کا آستانہ عطاریہ دیگر آستانوں کی طرح مریدوں  کے جمگھٹے کو   آداب مریدی بجالانے کےلئے مجبورنہیں کرتا بلکہ اس آستانہ کا کمال ہےکہ یہاں ایک بار آنا والا  مرید امت کا مبلغ بن کر  خدمت میں دین میں مصروف ہوجاتاہے۔مولانا الیاس عطاری دامت برکاتہم العالیہ  اس دور میں اللہ کے مقررکردہ ایک ایسے مصلح ، مبلغ ، نجات دہندہ    ،مسیحا ہیں جن کی دینی جدوجہد سے  ناصرف پاکستان بلکہ دنیا کے  150 سے زائد ممالک میں  رسول اللہ  کی محبت سے سرشار عاشقان رسول  مولانا کے پیغام محبت رسول کے داعی بن کر امن کی آشناؤں کا کردار ادا کررہے  ہیں اور دین  کا  پیغام ، نیکی  کی دعوت ایک ایک فرد تک پہنچانے کےلئے قافلوں میں سفر کررہے ہیں۔ایک امام مسجد 1981 میں سنتوں بھری تحریک  دعوت اسلامی کا پیغام عام کرنے کےلئے گھر سے نکلتا ہے الطاف ربانی سے منصب امیر اہلسنت پر فائز ہوتا ہے اور دنیا  کے کونے کونے تک اپنی تنظیم کے تبلیغی اثرات مرتب کرتا ہے  آج ایشیاء سے یورپ تک، مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب   کےکئی ملکوں میں دعوت اسلامی   کے مدنی مرکز فیضان مدینہ  کے آثار   نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔آپ کے تربیت یافتہ مبلغین  اسلام کے پیغام امن  کے سراپا کردار بن کر دنیا کے 150 سے زائد ممالک میں اپنے شیخ  کی تعلیمات کی روشنی  میں  دین کا کام کررہے ہیں۔لوگوں کو قرآن کی تعلیمات سے آشنا کررہے ہیں، علم دین کا کورس ، عالم بنانے والا نصاب درس نظامی  پڑھارہے ہیں، ارکان اسلام  سمجھارہے ہیں، ظاہر کی اصلاح کے ساتھ باطن  کا تزکیہ  بھی کررہے ہیں۔آج  بین الاقوامی سطح پر شیخ کامل  کے دینی کاموں کے اثرات پڑنے کی وجہ سے   دعوت اسلامی کو دنیا کے کسی بھی ملک میں  بغیر کسی رکاوٹ کے اپنے تنظیمی کاموں  کرنے میں کوئی دشوارئی نہیں ہوتی ہے کیونکہ اس کے پیچھے مرشد عطار کی مخلصانہ دینی کوششیں ہیں  جن کی کامیابی کا  زمانہ گواہ ہے ۔

امیر اہلسنت  کی سوچ کا عکاس دعوت اسلامی کافلاحی شعبہ:

بانی دعوت اسلامی   کی دن رات کی محنتیں ، کوششیں ،امت کی اصلاح کا جذب دروں    ، خیرخواہی کی عادت ، غریب پروی،بندہ نوازی جیسے اوصاف    نے دعوت اسلامی  کے مقصد کو کامیابی سے ہمکنار کیااور یہ کامیابی کا سفر ابھی جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔امیر اہلسنت ایک فرد تھے لیکن آج ایک اجتماعیت کی عملی تصویر ہیں، آ پ   کی طائرانہ نظر نے  ایسے ایسے نیاب افراد کو چنا  جنہوں نے آپ کی سوچ کو عملی جامہ پہننانے میں بہت بڑکردار ادا کیا۔امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ نے دعوت اسلامی  کے ذمہ داروں کو  ’’اپنی اور سارے جہاں کے لوگوں کی اصلاح ‘‘ کا مقصد دیا، اس اصلاحی مقصد کے مفہوم کو اسلام کی بین الاقوامی  تعلیمات کی روشنی میں دیکھا جائے تو اس اصلاح کے بہت سارے مفہوم آتے ہیں اور سب سے بڑامفہوم فلاح کا ہے جس کے معنی دنیا اور آخر ت کی کامیابی ہے۔امیر اہلسنت نے  اپنے ماننے والوں کو درد بانٹنے کا درس دیا، خیرخواہی ، بھائی چارے کی عادت  اپنانے  کی تعلیم دی، کسی کو تکلیف نہ ہواس کی عملی تصویر دنیا کےنقشے پر یوں مرتب کی کہ  اپنے اجتماعات کا  دورانیہ بھی محدود اور چار دیواری تک مقرر کردیا ۔اس عظیم خیر خواہ انسان کی سوچ فقد دوسرے کی بھلائی اور دنیا و آخرت کی کامیابی  تھی بس اسی چیز نے آپ کو مصلح امت بنادیا اور پھر وہ وقت آیا جب  آپ کے زیرسرپرستی  ایک ایسے ادارہ کی بنیاد رکھی  جاتی ہے جس کے اثرات انٹرنیشنل میڈیا اور فلاح وبہود  کے بین الاقوامی اداروں میں بھی نظر آنے لگ گئے۔جی ہاں فیضان گلوبل ریلیف فاؤنڈیشن (FGRF)   یہ وہ شعبہ ہے جو شیخ طریقت  کی سوچ کا عکاس ہے۔اس شعبہ نے بہت ہی تھوڑے وقت میں کامیابی کی کئی منزلیں طے کیں،محدود وسائل کے ساتھ مظلموں ، لاچاروں ،یتیموں ، بیواؤں، قدرتی آفات میں مبتلا ، زلزلہ اورسیلاب  سے متاثرین، طوفانی بارشوں  کی زد میں آئےغربیوں کی امداد  میں بے مثال قربانی پیش کیں۔غزہ کے مظلوم مسلمانو ں   کو  اسلامی اخوت   کا نمونہ پیش کیااور ان کی ہر طرح کی مدد کےلئے ہزاروں ٹن پر مشمتل خوراک، ادویات، شیلٹر ز، لباس، گرم کپڑے ، سونے کےلئے گرم بستر، لحاف، رضائیاں، بچوں  کےلئے کھانے پینے کی چیزیں  فراہم کیں ، ترکیہ کے مسلمانوں  کی دل کھول کر مدد کی، شام    میں یتیموں  اور بیواؤں کو  رہائش   کے  کامیاب پروجیکٹ کا تحفہ دیا۔اس شعبہ نے امیر اہلسنت   کے پیش کردہ نظام  دعوت اسلامی کے اصولوں کی مطابق  خیر خواہی کی اعلی تاریخ رقم کی۔

دعوت دین کےلئے امیر اہلسنت کی تحریری خدمات   :

عقل دنگ رہ جاتی ہے جب ایک ایسےشخص کے بارے میں سوش وبچارکیا جاتا ہے جس نے امت کی اصلاح کی تاریخ رقم کی اور بہت تھوڑے وقت میں وہ کارہائے نمایاں سرانجام دیئے جس کے آگے بڑے بڑوں کا ناطقہ سربگریباں  ہیں۔بظاہر دن بھر لوگوں کی بھلائی کے لئے سفر میں رہنے والا شخص ایسے بھی کام کرسکتا ہے جس کےعلمی  اثرات نے   دنیا  کے بڑے بڑے مصنفوں کو بھی حیران وششسدر کردیا ہو۔دیوانہ وار خیر کی دعوت دینے کےلئے اپنا خون پسینہ بہارہاہےاور امت کی نوک پلک سنوارنے کےلئے سینکڑوں صفحات پر قرآن وحدیث  کی باتیں بھی تحریر کررہاہے۔یقینا یہ سب انسان کے بس کی بات نہیں یہ فقط اللہ کا فضل ہے جسے وہ اپنے پسندیدہ بندوں میں تقسیم کرتا ہے،اللہ اسے ہی اپنا پسندیدہ بندہ بناتا ہے جو اس کی طرف صدق دل سے رجوع کرتا ہے، اللہ اسے ہی عزتوں سے نوازتا ہےجو اس کی  رضا کےلئے کوششیں کرتاہ ے۔امیر اہلسنت  کے بارے میں کوئی دورائے نہیں کہ آپ   اللہ کے ان مقربین بندوں میں شامل ہیں جن پر اللہ کی خاص عنایتیں ہیں۔یہ حقیقت سب کے علم میں ہےکہ کوئی بھی کام اللہ کی توفیق کے بنا ممکن نہیں۔چنانچہ بانی دعوت اسلامی کی  زندگی پر طائرنہ نظر ڈالیں تو یہ بات روز روشن کی طرح آشکارا ہوتی ہےکہ آپ کی زندگی کی صبح وشام فقط دین کے ترویج واشاعت میں گزری اور گزررہی ہے۔آپ نے اپنی گوناگوں مصروفیات کے باوجود امت کو  بے شمار کتابوں ، رسائل اور کتابچو ں کا تحفہ دیا۔آپ کی ایک کتاب  ’’فیضان سنت ‘‘     کے اشاعتی ریکاڈر کو انصاف کے ترازوں میں تولا جائے تو بین الاقوامی دنیا  اس کتاب کو گینز بک آف ریکارڈ میں شال کرےلاکھوں کی تعدد میں چھپ کر امیر اہلسنت   کے علمی میراث کو دنیا میں تقسیم کررہی ہے۔

امیر اہلسنت نے تبلیغی خدمات کے علاوہ امت کو علم کا شوق دلانے اور مطالعہ کی مہمیز لگانے کےلئے ،عقائد، عبادات، اعمال ، معاشرتی موضوعات، فضائل ومناقب، سیرت، تصوف، مسائل فقہیہ، ارکان اسلام  جیسے موضوعات پر قلم اٹھایا اور ایسی نایاب تحریریں  امت کو تحفہ کے طور پر دی کہ جن کو پڑھنے کےبعد دین  کی اہمیت اور سنت پر عمل کرنے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔امیر اہلسنت  ایک قادر الکلام ،مصنف شاعر، ادیب بھی ہیں آپ  نے حمد باری تعالی، نعت مصطفی، مناقب صحابہ، مناصب اولیا میں  خوبصورت کلام  بھی لکھیں ہیں ۔اپنے مریدوں کو  مشرب عطاریہ قادریہ پلانے کےلئے سلوک    کا طریقہ بھی مرتب کیا ہے۔غمزدہ امت  کےغموں کو مٹانے  اور دکھی امت کے درد کو دور کرنے کےلئے خاص اوراد  بھی مرتب کئے ہیں۔تقربیا ایک سو سے زائد  کتابیں، رسائل، کتابچیں  آپ کی زندہ جاید   تحریری خدمات کا عملی ثبوت ہیں۔

امیر اہلسنت   کی ہمہ جہت شخصیت :

امیر اہلسنت   کی شخصیت کے مختلف گوشوں کو زیرقرطاس لانے کےلئے ہزاروں صفحات درکا ر ہیں مستقبل کا مؤرخ جب بانی دعوت اسلامی پر تحقیق   کرے گا تو اس کےلئے آپ کی زندگی کا ایک موضوع کے تحت احاطہ کرنا ممکن نہیں ہوگا۔کیونکہ امیر اہلسنت ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں، آپ وہ چشمہ فیض ہیں جس سے خیر  کے کئی دریا بہتے ہیں، آپ علم کے وہ مینارہ نور ہیں جس کی کرنوں سے علم کی شمعیں جلتی ہیں، امیر اہلسنت  ایک تنظیم کا نام ہے ، امیر اہلسنت   علم وعمل کا نام ہے،امیر اہلسنت کردار کی عظمت کا نام ہے،امیر اہلسنت  مرجع الخلائق ہیں، امیر اہلسنت پیکر شریعت وطریقت ہیں،امیراہلسنت   عشق رسول کا پیکر  ہیں، امیر اہلسنت تصوف کی عملی تعبیر ہیں۔ہمہ جہت  شخصیت کے جس بھی  موضوع پر ریسرچ کی جائے گی  امیر اہلسنت اس کا عنوان  ہوں گے۔

بانی دعوت اسلامی  حضرت علامہ مولانا محمد الیاس قادری  کی حیات وخدمات    کو زیر قرطاس لانے کےلئے ایک طویل وقت اور ہزاروں صفحات درکارہیں۔زیر مطالعہ تحریر تو فقط ایک نذرانہ عقیدت ہے  جس کو عاشقان امیر اہلسنت کےلئے پیش کیاگیا  ورنہ حق تو ہےکہ  امیر اہلسنت  کی ہمہ جہت شخصیت پر قلم اٹھانا اتنا آسان ہیں بلکہ بہت عرق ریزہ  کی ضرورت پڑے گی ۔

دعوت اسلامی   کے پلیٹ فارم  پر 26 رمضان المبارک   کا دن بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے اس دن بانی دعوت اسلامی   کی ولادت ہوئی تو اس مناسبت سے   آپ کی حیات وخدمات  کی جھلک پیش کی گئی ہیں ورنہ  امیراہلسنت کی ایک ذات اور بے شمار موضوعات  ہیں جن پر قلم اٹھانی کی ضررت ہے ۔امیر اہلسنت کی زندگی کے مختلف گوشے ہیں ان گوشوں میں سے  چند گوشے    26رمضان المبارک کے  موقع  مناسبت سے  پیش کئے گئے ہیں اور درحقیقت یہ ایک مرید کا خراج عقیدت ہے جو شیخ کی بارگاہ میں پیش کیاگیاہے۔اس اہم موقع پر آئی ٹی دعوت اسلامی  اسلامک ریسرچ سینٹر  اورعاشقان امیر اہلسنت کو دعوت دیتی ہے کہ امیر اہلسنت  کی شخصیت اور آپ کی خدمات پر تحقیقی مکالے لکھیں جائیںجیسےکہ :’’امیر اہلسنت  کی ابتدائی زندگی  کی حسین یادیں‘‘ ،’’امیر اہلسنت         کی دینی جدوجہد‘‘،’’امیر  اہلسنت  کے  تاریخی کارنامے‘‘،’’امیر اہلسنت  بحیثیت مبلغ‘’،’’امیر اہلسنت کا اسلو ب تبلیغ‘‘،’’امیراہلسنت   کی تعلیمات  کے دوررس نتائج‘‘،’’امیر اہلسنت   کی علمی خدمات‘‘،’’امیر اہلسنت   بحیثیت عاشق رسول‘‘،’’امیر اہلسنت کا انداز تربیت‘‘،’’امیر اہلسنت ا ور دعوت اسلامی‘‘،’’امیر اہلسنت مصلح امت ‘‘،’’امیر اہلسنت  کی شاعری کے موضوعات‘‘،’’امیر اہلسنت      کے دینی امتیازات‘‘،’’امیر اہلسنت  اور دور جدید کے تقاضے‘‘وغیرہ عنوانات کو زیر قلم لانے کی ضرورت ہےتاکہ جہاں دعوت اسلامی عملی طور پر امیر اہلسنت کی  خدمات کو اجاگر کرنے کی کوششیں کررہی ہیں وہیں اہل قلم کو بھی علمی لحاظ سے امیر اہلسنت  کی خدمات بیان کرنے کی ضرورت ہے۔

اللہ تعالی آپ کا سایہ عاطفت ہم پر دراز کرے ، آپ کو عافیت کے ساتھ صحت وسلامتی عطافرمائے ، آپ کے فیض کو عام کرے، آپ  کو  دارزی عمر بالخیر  عطا فرمائے اور ہم سب  کو آپ   کے فیض سے مستفیض کرے۔

آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

امیرِ اہلسنت

سفر دعوتِ اسلامی کا باتیں امیرِ اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کی

مفتی منیب الرحمٰن

مدنی تاثرات - چیئرمین رؤیتِ ہلال کمیٹی پاکستان، صدر تنظیم المدارس پاکستان، حضرت علامہ مولانا مفتی منیب الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم العالیہ پاکستان