aala hazrat
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے

تذکرہ امام اہلسنت  مولانا شاہ احمد رضا خان    رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  

مجدد دین وملت مولانا شاہ احمد رضا خان قادری حنفی ماتریدی بریلوی   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  عالم اسلام کی عظیم شخصیت اپنے تعارف کے لئے کسی قلم کی محتاج نہیں بلکہ ان کا علمی ورثہ، ہزاروں موضوعات پر تحریریں،علم کے ٹھوس ادلہ سے مزین رسائل، پیش آمدہ مسائل کے بارے میں قرآن وسنت،فقہائے امت کے ادلہ سے ماخوذ مستند فتاوی،تاریخ اسلامی کا انسائیکلوپیڈیا فتاوی رضویہ،عشق ومحبت سے لبریز عشاق دلفگار کےلئے نعتیہ کلام کا تحفہ، متلاشیاں حق کی تربیت کےلئے سلوک کےاسباق، جویان تحقیق کےلئے تحقیقی اصولوں پر مبنی نگارشات، کم وبیش پانچ سو ساٹھ علوم کے دریا بہاتے علم کے چشمے اعلی حضرت کی شخصیت کے تعارف ہیں۔

تاجدار اہلسنت امام اہلسنت    رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  کی جلالت علمی ، شان فقاہت، فہم ودانش،عقل وفراست اور تبحر علمی کے اپنے تو کجا غیر بھی معترف ہیں۔

ایسی نابغہ روز گار ہستی جس نے فنون علم ودانش کا کوئی ایسا شعبہ بھی نہیں چھوڑا جس  میں امام اہلسنت   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  کے علمی نگارشات کے انمول نقوش نا ملتے ہوں ۔

چھے سال کی عمر سے سفر آخرت تک قلم رضا سے وہ نور بداماں علم کی کرنیں پھوٹیں کہ دنیا ورطہ حیرت میں ہےکہ ہزاروں موضوعات پر ہزارسے زائد کتابیں  اور ہر کتاب میں موضوع سے متعلق دلائل کے انبار ہیں۔

محقق اہلسنت ، وارث علوم نبوت، واقف شریعت وطریقت امام اہلسنت عظیم البرکت شاہ امام احمد رضا خان حنفی ماتریدی   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  کے بارے میں امیر اہلسنت مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری حنفی دامت برکاتھم العالیہ اپنے رسالہ ’’تذکرۂ امام احمدرضا ‘‘‘میں لکھتے ہیں:’’ میرے آقا اعلیٰ حضرت   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  عشقِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاسرتاپا نُمُونہ تھے، آپ   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  کا نعتیہ دیوان ’’حدائقِ بخشش شریف‘‘ اِس اَمر کا شاہد ہے۔ آپ   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  کی نَوکِ قلم بلکہ گہرائیِ قَلب سے نِکلا ہوا ہر مِصرَعَہ مصطَفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے آپ   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  کی بے پایاں عقیدت و محبت کی شہادت دیتا ہے۔ آپ   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  نے کبھی کسی دُنیوی تاجدار کی خوشامد کے لیے قصیدہ نہیں لکھا،اِس لیے کہ آپ   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  نے حُضورِ تاجدارِ رِ سالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اِطاعت و غُلامی کو دل و جان سے قبول کرلیا تھا۔اور اس میں مرتبۂ کمال کو پہنچے ہوئے تھے، اس کا اظہار آپ   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  نے ایک شِعر میں اِس طرح فرمایا :  ؎

اِنہیں جانا اِنہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام

الحمد للہ میں دُنیا سے مسلمان گیا

(تذکرہ امام احمد رضا، ص۱۰)

اعلی اخلاق وکردار،سینکڑوں سالہ قدیم وجدید علوم وفنون میں دسترس،لاتعداد کتابوں کے مصنف،فقہائے ائمہ اربعہ کے علوم پر مہارت، فقاہت وبصارت،عبادت وریاضت ، اخلاق وکردار،محبت وعشق رسول میں اعلی حضرت   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  جیسا کوئی ہمر عصر نا تھا۔

اعلی حضرت   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  کی شخصیت کا ہر گوشہ ہزاروں صفحات پر محیط ہے اور آپ کی ذات کے مختلف پہلوؤں پر اہل قلم لکھتے چلے آرہے ہیں ،جو جس زاویہ سے اعلی حضرت   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  کو دیکھتا ہے اس پہلو کو سپرد قلم کرکے اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرتا ہے۔چنانچہ عام استفادہ کے لئے اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے تعارف کی ایک جھلک دعوت اسلامی کی آفیشل ویب سائٹ پر پیش کی جاتی ہے۔

ولادت امام احمد رضا   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  

شوال المکرم کی 10 تاریخ بمطابق 14 جون ۱۸۵۶  برصغیر کی علمی آماجگاہ شہر بریلی میں ایک ایسے بچے کی ولادت باسعادت ہوتی ہے جس کو عالم شرق وغرب  کے علما وفقہا میں امام اہلسنت ، مولانا احمد رضاخان   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ   کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اس نومولود کی ولادت ناصرف اہل خانہ کےلئے خیر کا باعث بنی بلکہ ہندوستان اور دنیا بھر کےمسلمانوں  کو دُورِ اسلاف کے علماو فقہا،صلحا واتقیاکی عملی تصویر دیکھنے کو ملی۔

آپ کی پیدائش پر اہل خانہ نے آپ کا نام محمد رکھا اور تاریخی اعتبار سے آپ المختار(۱۲۷۲ھ)کےلقب سے ملقب ہوئے ۔جد اعلی حضرت والاامام علوم عقلیہ ونقلیہ جناب مولانا رضاعلی خان    رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  نے آپ کو احمد رضا کے نام سے موسوم کیا اور یہ ہی نام زبان زَدِ خاص و عام ہوا۔

ابتدائی تعلیم کے ماہ وسال

اعلی حضرت کا جنم ایسے گھرانہ میں ہوا جو علم وعمل کے لحاظ سے پورے بریلی میں اپنی مثال آپ تھا،والد گرامیٔ قدر جناب مولانا نقی علی خان صاحب   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  اپنے وقت کے قادر الکلام عالم ذی شان تھے تو جد امجدمولانا رضا علی خان بحر علوم  اسلاف تھے۔اوریہ وجہ ہےکہ ذوق علم کی میراث اعلیحضرت کو اپنے گھرانہ سے ملی ۔

ناظرہ قرآن کی سعادت:

 چنانچہ زندگی کے چا ر سال ابھی مکمل ہوئے ہی تھے کہ ناظرہ ٔ قرآن ختم کرنے کی سعادت ملی ۔کلام الٰہی کی برکتوں کو دامن میں سمیٹا تو علوم قرآن کی طرف توجہ مبذول ہوئی ۔ علوم دینیہ عقلیہ ونقلیہ  کی تحصیل کےلئے اعلیحضرت امام احمد رضا خان صاحب   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  کو زانوئے تلمذ طے کرنے کا شرف سب سے پہلے والد ماجد حضرت علامہ مولانا نقی علی خان    رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  صاحب سے ہوا۔باپ اپنے وقت کا امام اور بیٹے نے اہلسنت کی قیادت وسیادت کی امامت پر فائز ہونا ہے، ایک طرف والد گرامی کی پدرانہ شفقت بیتےکے سینے کو علوم و معارف کے گنجینہ سے لبریز کررہی تھی تو دوسری طرح علم وعمل ،تقوی وطہارت پر کاربند باپ کی روحانیت بیتے کی آنکھوں کے ذریعے سینے میں منتقل ہورہی تھی ۔

خطاب ذی شان بعنوان میلاد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم:

  والد گرامی کی  مشفقانہ محنت و محبت سے جو علوم اعلی حضرت کےسینے میں منتقل ہوئے تھےچھ سال مکمل ہونے پر اس کے اظہار کا آپ کو موقع ملا ۔آپ   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  نے ایک کثیر الازدحام مجمع میں عشق مصطفی میں ڈوب کر میلاد مصطفی کے موضوع پر ایسی مدلل جامع قرآن وسنت کے دلائل سےمزین بصیرت افروز خطاب کیا کہ مجمع میں موجود ہر شخص اعلی حضرت    رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  کی تقریر سن کرانگشت بدنداں ہوگیا ،دل ودماغ پر سکتہ طاری ہوگیا، علما اش اش کر اٹھے ایسا دلنواز خطاب ایسی پر مغز تقریر کی کہ اعلیحضرت    رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  نے سب کو حیران کردیا ۔

فن نحو  پر پہلی کاوش

عمرآٹھ سال ہوئی تو علم کا سمندر جو سینے میں موجزن تھا اس کی موجیں اپنا جوبن دکھانے لگیں، علوم کے بحر بیکراں کا قطرہ قطرہ علم کے موتی بن کا صفحہ قرطاس پر منتقل ہونےلگا عمر کےآٹھویں سال فن علم نحو کے موضوع پر مشہو زمانہ کتاب ’’ھدایۃ النحو ‘‘  کی شرح عربی زبان میں کرکے فن نحو کے علماکو ورطہ حیرت میں ڈالا ۔

فقیہانہ بصیر ت کا آغاز

زندگی کے پہلے عشرہ میں فقہائے امت کو علم اصول فقہ کی لاجوا ب کتاب ’’ مسلم الثبوت‘‘ کے حاشیہ کا تحفہ دیا اور یوں دبستان امام اعظم ابو حنیفہ    رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  میں ایک نئے فقیہ کی حیثیت سے اپنی پہچان کروائی ۔

دستار فضیلت:

اعلیحضرت   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  کے القابات میں سے ایک لقب عظیم البرکت  بھی ہے اس لقب کے معنی بہت زیادہ برکتوں والا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اعلیحضرت   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ   پربچپن سے ہی رب کائنات کی طرف سے برکتوں کا نزول ہوا،ذہن وفطانت ، عقل وشعور، فہم وفراست ،زیرک ودانائی، تقوی وپرہیزگاری کی تعمیری صلاحیتیں خداوند کریم کی طرف سے آپ کو ودیعت کی گئیں تھیں۔

بانکپن کی عمر میں بچوں کو کھیل کود اور شغل میلا سے خاص شغف ہوتاہے ذہن بھی اتنا پختہ نہیں ہوتا کہ علوم ومعارف کی باریکیاں اپنے اندر سمو لے۔لیکن امام احمد رضا   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  کی زندگی نے اپنے بچپن سے ہی  علم کی وہ منزلیں طے کرلی تھیں جن کو ہر کوئی اتنا آسانی سے طے نہیں کرسکتا تھا۔یہ فقط اللہ تعالی کا فضل وکرم اور رسول محتشم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی نظر کرم تھی کہ تیرہ سال دس ماہ چار دن کی عمر میں مروجہ علوم کی ناصرف تکمیل ہوئی بلکہ ان علوم پر سیر حاصل دسترس بھی ہوئی اور ان علوم پر ایسا ید طُولی نصیب ہواکہ جس دن تحصیل علم سے فراغت ہوئی اسی دن علم کے ثمرات ، اساتذہ کی محنت ، آباد واجداد کی علمی وراثت، ماں باپ کی دعاؤں کی تعبیردیکھنے کو ملی جب ایک تیرہ سال کا لڑکا فقہی بصارت کا حامل مسئلہ رضاعت پر جامع مانع فتوی لکھ کر والد ماجد رئیس المتکلمین مولانا محمد نقی علی خان صاحب قدس سرہ سے تحریرکردہ فتوی پر مہر تصدیق ثبت کرواکر مسند افتاء کی اہم ذمہ داری پر فائز ہوااور تاریخ نے دیکھا کہ اس نوخیز نے دنیا میں ثانی امام اعظم بن کر فقہ و فتوی کی  ایسی خدمت کی کہ آج تک امام اہلسنت   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  کے علوم کا سورج اپنی آب وتاب سے علم کی راہوں کو روشن کررہا ہے۔

امام اہلسنت کی عملی زندگی کا آغاز:

تیرہ سال کی عمر میں علم کی دستار فضیلت سر پر سجائے مستند تدریس ، منصب افتاء کی ذمہ داریوں پر فائز ہوکر عملی زندگی کا آغاز ہوااور تادم واپسی دین کی تبلیغ و اشاعت کا کام اپنی شان وشوکت کے ساتھ جاری رہا۔

 اعلیحضرت   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  کی ظاہر ی وباطنی تربیت   میں  ان کے والد گرامی مولانا نقی علی خان صاحب رئیس المتکلمین کا بہت بڑا کردار تھا اسیلئے امام اہلسنت کا دل دنیاوی لذات اور خواہشات سے پاک تھا، دل کی پاکیزگی کا سامان تقوی وطہارت، اخلاص وللہیت ، خوف وخشیت  خداوند کریم کی طرف سے پیدائشی طور پر ملا ہوا تھا۔دل کی لطافت کا یہ عالم تھا کہ بائیس سال کی عمر میں والد ماجد کی ہمراہی میں مرشد دوراں حضرت سید آل رسول قادری برکاتی کے آستانہ پر پہنچے تو    نگاہ مرشد میں یک دم سماگئے اور بیعت کے شرف کے ساتھ خلافت واجازت سلسلہ عالیہ قادریہ برکاتیہ کے اورادو وظائف سے بھی نواز دیئے گئے جبکہ اس مقام پر پہنچنے کےلئے سالکین کو بڑی ریاضتیں اور مشقتیں اٹھانی پڑتی ہیں تب جاکر خلافت واجازت کا گوہر نایاب حاصل ہوتا ہے۔

 نگاہ مرشد میں مقام اعلی حضرت :

اعلی حضرت کو خلافت واجازت سے نوازنے کےبعد مرشد حق کے وہ الفاظ اعلی حضرت کی شخصیت اور مرید باصفا کے کمالات  کو جاننے کےلئے کافی ہیں۔ حضرت سید آل رسول قادری برکاتی  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’ مجھے بڑی فکر تھی کہ بروز محشر اگر احکم الحاکمین نےسوال فرمایاکہ آل رسول تو میرے لیے کیا لایا ہے؟تو میں کیا پیش کروں گا ؟مگر اللہ کا شکر ہے کہ آج وہ فکر دور ہوگئی ، اس وقت میں احمد رضا کو پیش کردوں گا ‘‘(مام احمد رضا ارباب علم ودانش کی نظر میں ،ص:۳۵،دارالقلم، ذاکر نگر ، نئی دہلی،بحوالۂ ترجمان اہل سنت ،پیلی بھیت۔)

اعلی حضرت   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ   نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ دین کی تبلیغ ، سنت رسول کی احیاء ، عقائد اہلسنت کی حقانیت، ،اسلامی افکار ونظریات کی ترویج ، اصلاح احوال، اسلامی نظام معیشت کی آبیاری کے ساتھ عقائد باطل کی سرکوبی، بدعات کا قلع قمع، فرقہ باطلہ کی  بیخ کنی کےلئے عملی اقدامات بھی اٹھائے ۔لوگوں کی تربیت کے لئے درس وتدریس ، بیانات ، خطبات کا سلسلہ جاری کیا۔اس کے علاوہ اعلی حضرت    رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  کے علمی کاموں میں ایک بہت بڑا کام خدمت قرآن کا تھا ۔

امیر اہلسنت دامت برکاتھم العالیہ فرماتے ہیں:’’ میرے آقا اعلی حضرت   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  نے قراٰنِ کریم کا ترجَمہ کیا جو اُردو کے موجودہ تَراجِم میں سب پر فائق(یعنی فوقیت رکھتا) ہے۔ ترجَمہ کا نام ’’کنز الایمان‘‘ہے جس پر آپ   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  کے خلیفہ حضرتِ صدرُ الاَفاضِل مولانا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  نے بنامِ ’’ خزائنُ العرفان‘‘ اورمفسر شہیرحضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان نے ’’ نورالعرفان‘‘ کے نام سے حاشِیہ لکھا ہے۔ ‘‘ (تذکرہ امام احمد رضا، ص۱۸،۱۹)

عاشق اعلی حضرت امیر اہلسنت دامت برکاتھم العالیہ فرماتے ہیں:’’ میرے آقا اعلیٰ حضرت   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  نے مختلف عُنوانات پر کم و بیش ایک ہزار کتابیں لِکھی ہیں۔ یوں تو آپ   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  نے 1286ھ سے1340ھ تک لاکھوں فتو ے دیئے ہوں گے ، لیکن افسوس! کہ سب نَقل نہ کئے جاسکے، جونَقل کرلیے گئے تھے اُن کا نام’’العطا يا النبوية فى الفتاوى الرضوية‘‘ رکھا گیا۔ فتاوٰی رضویہ (مخرحه) کی 30جلدیں ہیں جن کے کل صَفحات 21656،کل سُوالات وجوابات : 6847اور کل رسائل :206ہیں۔(فتاوٰی رضویہ مخرجه ج۳۰ ص۱۰ رضا فاؤنڈیشن مرکز الاولیاء لاہور)

       قراٰن و حدیث ، فِقہ، مَنطِق اور کلام وغیرہ میں آپ   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  کی وُسعَتِ نظرِی کا اندازہ آپ   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  کے فتاوٰی کے مُطالَعے سے ہی ہوسکتا ہے۔کیوں کہ آپ   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  کے ہرفتوے میں دلائل کا سَمندر موج زَن ہے۔ ‘‘ (تذکرہ امام احمد رضا، ص۱۷،۱۸)

وفاتِ حسرت آیات:

      اعلیٰ حضرت   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  نے اپنی وفات سے 4ماہ22 دن پہلے خود اپنے وِصال کی خبر دے کر پارہ29 سورۃ الدھر کی آیت15 سے سالِ انتِقال کا استخراج فرمادیا تھا۔اِس آیتِ شریفہ کے علم ابجد کے حساب سے 1340عَدَد بنتے ہیں اور یِہی ہجری سال کے اعتبار سے سنِ وفات ہے۔وہ آیتِ مبارَکہ یہ ہے :

وَ یُطَافُ عَلَیْهِمْ بِاٰنِیَة ٍ مِّنْ فِضَّةٍ وَّ اَكْوَابٍ كَانَتْ قَؔوَارِیْرَاۡ  ( پ ۲۹، الدھر:۱۵)

ترجمہ کنز الایمان: اور ان پر چاندی کے برتنوں اور کُوزوں کا دَور ہوگا۔

(سوانحِ امام احمد رضا ص۳۸۴ ، تذکرہ امام احمد رضا، ص ۱۹)

اعلیحضرت   رَحْمَۃُاللہِ تعالٰی علیہ  کی مکمل زندگی کا تعارف، علمی کاوشیں، کتابیں، آپ کے تحریری فتاوی جات، رسائل ، عشق ومحبت  رسول میں ڈوباہوا’’حدائق بخشش‘‘  وغیرہ کے بارے میں  محققین ، اسلامی اسکالر ز، علمائے کرام نے بےشمار کتابیں لکھیں۔لاتعداد ریسرچ اسکالرز اعلی حضرت کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر پی ایچ  ڈی بھی کرچکے ہیں اور کئی نئے نئے گوشوں اور زاویوں پر اپنے تحقیقی مقالے (Research Theses ) لکھ رہے ہیں۔

 الحمد للہ ! دعوت اسلامی کے علمی و تحقیقی پلیٹ فارم  ’’اسلامی ریسرچ سینٹر ‘‘ المدینۃ العلمیہ نے بھی اعلی حضرت عظیم البرکت  مولانا امام احمد رضا خاں  رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی سیرت اور حالات زندگی  سے متعلق عام فہم اور سادہ انداز میں ’’شان امام احمد رضا ‘‘اور ’’ارشادات امام احمد رضا ‘‘کے نام سے رسالے لکھیں ہیں جوکہ مکتبۃ المدینہ پر موجود دعوت مطالعہ دے رہے ہیں ۔ اس کےعلاوہ دعوت اسلامی کے پلیٹ فارم سے اب تک اعلی حضرت کی سیرت،آپ کے علمی کام، آپ کے عشق رسول کے عملی پہلوؤں پر ،کرامات اعلی حضرت  جیسے بے شمار موضوعات پر بیانات، مدنی مذاکرے ، علمی محافلیں ، مدنی چینل کے سلسلے  بھی منعقد ہوچکے ہیں جوکہ آپ کے لئے دعوت اسلامی کی ویب سائٹ پر باآسانی دسیتاب  ہیں۔

کیا شان ہے اعلی حضرت کی

اس جدید دور میں اعلی حضرت کی تعلیمات ضروری کیوں؟