دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
ہسٹری

مخصوص سرچ

30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

Arhat Kay Bare Mein Sharai Ahkam | آڑھت کے بارے میں شرعی احکام

arhat kay baray mein sharai ahkam ka tazkirah

book_icon
آڑھت کے بارے میں شرعی احکام
            
مقدمۃ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا،تواس کے لیے زندگی بسر کرنے کے اسباب بھی پیدا فرمائے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے: وَ لَقَدْ مَكَّنّٰكُمْ فِی الْاَرْضِ وَ جَعَلْنَا لَكُمْ فِیْهَا مَعَایِشَؕ-قَلِیْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ۠(۱۰) ترجمہ کنز العرفان :’’اور بیشک ہم نے تمہیں زمین میں ٹھکانا دیا اور تمہارے لیے اس میں زندگی گزارنے کے اسباب بنائے ،تم بہت ہی کم شکر ادا کرتے ہو۔‘‘ انسان کو زندگی گزارنے اور جسمانی قوت بحال رکھنے کے لیے بہت سی چیزوں کی ضرورت پیش آتی ہے ،جن میں اشیائے خوردو نوش(کھانے پینے کی اشیاء)کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔اشیاء کھانے پینے کی ہوں یا ان کے علاوہ دیگر ضروریاتِ زندگی ،بہر حال ان کے حصول کا بہت بڑا ذریعہ تجارت ہے،گویا تجارت وہ ناگزیر ضرورت ہے،جس کے بغیر انسانی معاشرے کا نظام نہیں چل سکتا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی امت کو تجارت کی ترغیب دی ہے۔چنانچہ ارشاد فرمایا:’’ عليكم بالتجارة فإن فيها تسعة أعشار الرزق ‘‘تم پر تجارت کو اختیار کرنا لازم ہے،کیونکہ رزق کے دس حصوں میں سے نو حصے اسی میں ہیں۔ ( احیاء علوم الدین،جلد2،صفحہ62،دار المعرفہ،بیروت ) پھرتجارت کا میدان بہت وسیع ہے ،بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مزید وسعت پیدا ہوتی جا رہی ہے،آئے دن جدید تجارتی شکلیں نمو دار ہو رہی ہیں۔تجارت ہی کے شعبوں میں سے ایک شعبہ آڑھت کا نظام بھی ہے۔غلہ منڈی ،فروٹ منڈی اور سبزی منڈی میں عام طورپر خریدوفروخت اسی نظام کے تحت ہوتی ہے اور یہ نظام فقط منڈیوں تک ہی محدود نہیں ،بلکہ کسانوں اور زمینداروں کے ساتھ بھی اس کا بہت گہرا تعلق ہے۔الغرض آڑھتی نظام بھی میدانِ تجارت میں بہت سی جگہ گھیرے ہوئے ہے۔اسلام چونکہ مکمل دین اورضابطہ حیات ہے،جس طرح زندگی کے دیگر شعبوں میں رہنمائی کرتا ہے،اسی طرح تجارت کے معاملے میں بھی پوری رہنمائی کرتا ہے،آڑھت کے حوالے سے بھی اسلامی اصول مقرر ہیں ،مگررائج آڑھتی نظام کا اگر بغور جائزہ لیا جائے،تو افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ جس طرح تجارت کے دیگر شعبوں میں بہت سی شرعی خرابیوں نے جگہ لے لی ہے،یونہی آڑھتی نظام میں بھی شرعی خرابیاں کم نہیں،بلکہ مزید بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔سود،جھوٹ،دھوکہ،فراڈاورظلم وغیرہ برائیوں کا ارتکاب اس میں سرِ فہرست ہے ۔بہت ہی کم افراد ایسے ہیں ،جو شرعی خرابیوں سے بچتے ہوئے یہ کام کرتے ہیں۔ اس صورتِ حال کے پیشِ نظر استاذِ محترم،شیخ الحدیث والتفسیر،حضرتِ علامہ مولانا مفتی محمد قاسم عطاری دامت برکاتہم العالیہ نے مجھے آڑھت سے متعلق پیش آنے والے مسائل پر مشتمل ایک کتاب مرتب کرنے کا حکم ارشاد فرمایا۔حکم کی تعمیل کرتے ہوئے میں نے اس پر کام شروع کردیا،جو بفضلہ تعالیٰ پایہ تکمیل تک پہنچ چکا۔ابتدائی کام مکمل ہونے کے بعدمولاناساجدمدنی عطاری مدظلہ العالی نےاس کتاب کابغوراوربنظرِتفتیش مطالعہ کیا اورشرعی تفتیش کے ساتھ ساتھ کتاب کوبہتروآسان بنانے کے لیے مختلف قسم کی تبدیلیوں کےمشورے دیئے اور کچھ مقامات پر خود بھی تبدیلیاں کیں اوراب گویا اس کتاب کے مسائل ان کی تصدیق سے شائع ہو رہے ہیں۔آسانی کے پیشِ نظرمسائل کو سوال وجواب کی صورت میں بیان کیا گیا ہے ۔اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ اس ادنیٰ سی کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور اسے ذریعہ نجات بنائے۔آمین فرحان افضل عطاری 11.12.2020 بسمِ اللہ الرَّحمٰنِ ا لرَّحِیم الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ وعلی آلک واصحبک یا حبیب اللہ

آڑھت کے بارے میں شرعی احکام

سوال نمبر:1 آڑھتی کسے کہتے ہیں؟ جواب: غلہ منڈی،فروٹ منڈی اورسبزی منڈی وغیرہ میں لوگوں کا مال کمیشن پر فروخت کرنے کو آڑھت کہتے ہیں اور یہ کاروبار کرنے والا شخص آڑھتی کہلاتا ہے۔ سوال نمبر:2 آڑھتی کی شرعی حیثیت کیا ہے اورآڑھت کا کاروبارکرنا کیسا ہے؟ جواب: آڑھتی کی شرعی حیثیت بروکرکی ہےاوربروکر کا اجارہ یعنی اجرت دے کر اس سے کام کروانا شرعی طور پر جائز ہے۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ بروکر کے اجارے میں نہ وقت کی مقدار مقرر ہوتی ہے اور نہ ہی کام کی اور اجارے کے اصولوں کے مطابق ایسا اجارہ درست نہیں ہوتا،لیکن لوگوں کی حاجت اور عرف کی وجہ سے فقہائے کرام نےاس کی اجازت دی ہے،کیونکہ بہت سےافراد دیگر کاموں میں تو مہارت رکھتے ہیں،لیکن خریدوفروخت وغیرہ معاملات سے نابلد(انجان )ہوتے ہیں،گاہک تلاش کرنے،چیز کا بھاؤ کرنے،اسے پرکھنے،اس کے عیوب پر مطلع ہونے وغیرہ امور میں انہیں دشواری پیش آتی ہے اور کچھ کے پاس خریدوفروخت وغیرہ معاملات کے لیے وقت ہی نہیں ہوتا،لہذا ایسے افراد کو اس فیلڈ کے ماہرین کی مدد کی ضرورت پیش آتی ہے اوروہ ان سے مدد لیتے بھی ہیں۔ اسی حاجت اور تعامل کے پیشِ نظر فقہائے کرام نے بروکر(دلال) کے اجارے کو جائز قرار دیا ہے۔ پس جب اس کا اجارہ جائز ہے،تو یہ کام کرنا بھی شرعاًجائز ہےاورشریعت کا عام اصول ہے کہ کاروبار خواہ آڑھت کا ہو یا کوئی اور،اگر اُس میں شرعی احکام کی پاس داری کی جائے،تو وہ کاروبارنہ صرف جائز،بلکہ اچھی نیت کے ساتھ باعثِ ثواب اورباعثِ برکت بھی ہوتا ہے اور اگراس میں شرعی احکام کی پاس دار ی نہ کی جائے، تو وہی کاروبارناجائز اور اُخروی وبال کا باعث بن جاتا ہے اور اس سے برکت بھی اٹھا لی جاتی ہے۔ شرعی احکام کو مدِ نظر رکھنے والے تاجر کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ التاجر الصدوق الامین مع النبیین والصدیقین والشھداء ‘‘ترجمہ:سچ بولنے والا اور امانت دار تاجر (بروزِ قیامت )انبیاء ،صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا۔ (جامع ترمذی،جلد2،صفحہ506،مطبوعہ بیروت) اور ایک دوسری حدیث میں تاجروں کے بارے میں فرمایا:’’ التجار یحشرون یوم القیامۃ فجارا ،الا من اتقی اللہ وبر وصدق ‘‘ترجمہ:بروزِ قیامت تاجر گنہگار اٹھائے جائیں گے،مگر وہ جو اللہ سے ڈرے،بھلائی کرے اورسچ بولے۔ (سنن دارمی،جلد3،صفحہ1692،مطبوعہ عرب شریف ) بروکر کے اجارے کے متعلق غمز عیون البصائر شرح الاشباہ والنظائر میں فتاوی ولوالجیہ کے حوالے سے ہے:’’اجرة السمسار و المنادی و الحمامی و ما اشبہ ذلک مما لا تقدیر فیہ للوقت و لا مقدار لما یستحق بالعقد و للناس فیہ حاجة جائزة وان کان فی الاصل فاسدا، لحاجة الناس الی ذلک‘‘ترجمہ:دلال،منادی(اعلان کرنے والے)،حمام کےنگران اور اس جیسے ان لوگوں کی اجرت کہ جن کے کام میں وقت کی مقدار مقرر نہیں ہوتی اور نہ اس( کام )کی مقدار (مقرر)ہوتی ہے جس کا استحقاق عقد کے ذریعے ہےاور اس میں لوگوں کو حاجت بھی ہے، تو لوگوں کی حاجت اس سے متعلق ہونے کی وجہ سے (ان تمام لوگوں کی ) اجرت جائز ہے،اگرچہ اصل میں یہ(عقد)فاسد تھا ۔ (غمزعیون البصائر،جلد3،صفحہ130،مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ، بیروت ) اور فتاوی شامی میں ہے:’’ وفی الحاوی سئل محمد بن مسلمۃ عن اجرۃ السمسار، فقال: ارجو لا بأس بہ وان کان فی الاصل فاسدا، لکثرۃ التعامل وکثیر من ھذا غیر جائز فجوزوہ لحاجۃ الناس الیہ ‘‘ترجمہ:اور حاوی میں ہے: محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دلال کی اجرت سے متعلق سوال ہوا، تو آپ نے ارشاد فرمایا:”اگرچہ اصل کے اعتبار سے یہ فاسد ہے، مگرمجھے امید ہے کہ کثرت تعامل کی وجہ سے اس کے لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔اس لیے کہ اجارے کے بہت سے مسائل ایسے ہیں، جو جائز نہیں تھے،لیکن علماء و فقہاء نے لوگوں کی حاجت کی وجہ سےان کے جواز کا حکم دیا ہے ۔“ ) ردالمحتار مع الدر المختار،جلد 9 ،صفحہ 107 ،مطبوعہ کوئٹہ )

آڑھتی اور کسان کے درمیان پیش آنے والے قرض کے مسائل

سوال نمبر:3 عام طور پرآڑھتی کسانوں کوکاشتکاری کے لیے قرض دیتے ہیں اور قرض دیتے وقت یہ شرط لگاتے ہیں کہ کسان اپنی پیداوار اُسی آڑھتی کوبیچے گایا اسی کے ذریعے کمیشن پہ بِکوائے گا۔کیاقرض دیتے وقت اس طرح کی شرط لگانا درست ہے؟ جواب: آڑھتی کا کسان کو اس شرط کے ساتھ قرض دینا (کہ کسان اپنا مال اُسی آڑھتی کو بیچے گا یااسی کے ذریعے کمیشن پہ بکوائے گا) سودکی ایک صورت ہے اور ناجائز وحرام ہے ۔یونہی قرض دیتے وقت صراحۃ(یعنی لفظوں میں)تویہ طے نہ ہو،لیکن دلالۃطےہو ، یعنی وہاں یہ بات مشہورومعروف ہو کہ جب کسی آڑھتی سے قرض لیاجائے،تو مال اسی کو بیچنا ہوگایا اُسی کے ذریعے کمیشن پہ بکوانا پڑےگا، تویہ معاملہ بھی سود پرمشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز وحرام اور گناہ ہے،کیونکہ قرض کی واپسی پرصرف طے شدہ اضافی روپے لینا ہی سود نہیں ہے، بلکہ قرض کی بِنا پر کوئی بھی مشروط نفع و فائدہ سود ہی ہے اور یہاں آڑھتی ہی کو بیچنا یا اسی کے ذریعے کمیشن پر بیچنا ، اس قرض دینے والے آڑھتی کا نفع ہےاوریہاں کسان قرض لینے کی وجہ سے ہی اس چیز کاپابند ہے،کیونکہ اگر قرض نہ لیاہوتا،تو کوئی بھی اس طرح پابند نہ ہوتا اور قرض کی وجہ سے جو بھی نفع حاصل کیا جائے،حدیث کے حکم کے مطابق وہ سود ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ کل قرض جر منفعۃ فھو ربوا ‘‘ترجمہ:ہر وہ قرض جو نفع کھینچے وہ سود ہے۔ ( کنز العمال ،جلد16،صفحہ 238، مؤسسۃ الرسالہ ،بیروت ) اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:”اگرعقد قرض پہلے ہواوریہ بیع اس میں نصاًیادلالۃ مشروط (1)ہوتواس میں اختلاف ہے،بعض علماءاجازت دیتے ہیں کہ یہ بیع بشرط القرض نہیں،بلکہ قرض بشرط البیع ہےاورقرض شروط فاسدہ سے فاسد نہیں ہوتااور راجح یہ ہے کہ یہ بھی ممنوع ہے کہ اگرچہ شرط مفسدِقرض نہیں،مگریہ وہ قرض ہے جس کے ذریعہ سے ایک منفعت قرض دینے والےنے حاصل کی اور یہ ناجائز ہے۔ نبی صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں:’’ کل قرض جر منفعة فھو ربوا ‘‘جو قرض نفع کھینچے وہ سود ہے۔“ (فتاوی رضویہ ،جلد17،صفحہ275،رضافاونڈیشن،لاھور) اہم وضاحت:بعض آڑھتیوں کو اس طرح قرض کے لین دین کے بارے میں بتایا جائے کہ یہ جائز نہیں ہے،تووہ یوں کہتے ہیں کہ ’’یہ رقم فصل کی ایڈوانس قیمت بھی توہوسکتی ہے،لہذا یہ معاملہ ٹھیک ہے‘‘حالانکہ ان کی یہ بات درست نہیں،کیونکہ یہاں عمومی طور پر رقم دیتے وقت صراحۃ یا دلالۃ کسی بھی طرح سےآپس میں سوداطے کرنا نہیں پایا جاتا،جبکہ خریدوفروخت کے لیے صراحۃیا دلالۃسودا طے ہوناضروری ہے، اس کے بغیر خریدوفروخت منعقد ہی نہیں ہوتی،لہذایہ رقم فصل کی ایڈوانس قیمت نہیں ہو سکتی،بلکہ قرض ہی ہے،جس کا حکم اوپر بیان ہو چکا۔ اگر ہم یہاں خریدوفروخت تسلیم کرتے ہوئے اس رقم کو فصل کی ایڈوانس قیمت قرار دیں، تب بھی خریدوفروخت کا یہ معاملہ درست نہیں ہوگا،کیونکہ خریدوفروخت صحیح ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں قیمت مقرر ہواور قیمت کے مقابلے میں خریدی جانے والی چیز اور اس کی مقدار وغیرہ معلوم ومتعین ہو،اگر قیمت یابیچی جانے والی چیزمیں ایسی جہالت پائی جائے،جو بعد میں جھگڑے کا باعث بن سکتی ہے ،تو اس کی وجہ سے عقد(معاہدہ/ایگریمنٹ) فاسد ہوجاتا ہے اورایسے ناجائز معاہدے کی وجہ سے عاقدین یعنی معاہدہ کرنے والے گنہگار ہوتے ہیں،اگر ایساعقدکر بھی لیا جائے،تو اسے توڑنا واجب ہوتا ہے،جبکہ یہاں کسان کورقم دیتے وقت یہ طے نہیں کیا جاتا کہ اس رقم کے بدلے کس کوالٹی کی،کتنی فصل خریدی جا رہی ہے،لہذا اس اعتبار سے بھی یہ معاملہ درست نہیں ہے۔ خریدوفروخت کے لیے ایجاب و قبول کاپایا جانا ضروری ہوتا ہے،جیسا کہ فتاوی شامی میں ہے:’’ أن ركنه الإيجاب والقبول الدالان على التبادل أو ما يقوم مقامهما من التعاطي، فركنه الفعل الدال على الرضا بتبادل الملكين من قول أو فعل ‘‘ترجمہ:بیع کا رکن ایجاب و قبول کےایسےالفاظ ہیں ،جو تبادلے پر دلالت کریں یا جوچیز اس ایجاب و قبول کے قائم مقام ہو،یعنی کچھ بولے بغیر باہم لین دین کرنا، پس بیع کا رکن ایسا فعل ہے جو دو مملوکہ چیزوں کے باہم تبادلے میں رضا مندی پر دلالت کرے،چاہے وہ قول ہو یا کوئی عمل۔ (فتاوی شامی ،جلد4،صفحہ504،مطبوعہ دار الفکر ،بیروت) خریدوفروخت میں قیمت اور بیچی جانے والی چیز کا معلوم ہونا ضروری ہے۔چنانچہ فتاوی ہندیہ میں ہے:’’ جهالة المبيع او الثمن مانعۃ جواز البيع اذا كان يتعذر معها التسليم ‘‘ترجمہ: مبیع یا ثمن کی جہالت بیع کے جائز ہونےسے مانع ہے،جبکہ اس کی وجہ سےسپرد کرنا متعذر ہو۔ (فتاوی ھندیہ،جلد3،صفحہ122،مطبوعہ دار الفکر) اورصدرُ الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بیع کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بیان کرتے ہیں:’’مبیع وثمن دونوں اس طرح معلوم ہوں کہ نزاع(جھگڑا)پیدا نہ ہوسکے، اگر مجہول ہوں کہ نزاع ہو سکتی ہو، تو بیع صحیح نہیں ،مثلاً: اس ریوڑ میں سے ایک بکری بیچی یا اس چیز کو واجبی دام پربیچا یا اس قیمت پر بیچا جو فلاں شخص بتائے۔ (بھارِشریعت،جلد2،صفحہ 617، مکتبۃ المدینہ،کراچی) سوال نمبر:4 اگر اس طرح قرض کا لین دین ناجائز ہے،تو کیا اس کے جواز کی کوئی صورت ہو سکتی ہے؟ جواب: اس کے جواز کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ،جو درج ذیل ہیں: کسان کے قرض دینے والے آڑھتی کو بیچنے کی پہلی جائز صورت: کسان کو قرض دیتے وقت واضح الفاظ میں بیان کر دیا جائے کہ اس قرض کی بنیاد پہ آپ مجھے مال فروخت کرنے پر مجبور نہیں ہوں گے،میں آپ سے بس اپنا قرض واپس لوں گا،مال بیچنا یا نہ بیچنا تمہاری مرضی ہو گی ۔اس صراحت کے بعد قرض کا لین دین جائز ہوجائےگا۔پھر اس کے بعد کسان کی اپنی مرضی ہے کہ کسی دوسرے کو بیچےیا اِسی آڑھتی کواوراس صورت میں قرض خواہ آڑھتی ہرگز اسے مجبور نہیں کرسکتا اور اگر کسان اپنی رضا مندی سے اسی آڑھتی کو مال بیچنا چاہے ،تو اس کا بیچنا اور آڑھتی کا خریدنا بھی شرعاً جائز ہوجائے گا،جبکہ کوئی اور شرعی خرابی نہ پائی جائے ۔

کسان کے قرض دینے والے آڑھتی کو بیچنے کی دوسری جائز صورت:

رقم دینے والےاور لینے والے قرض کی صورت اختیار نہ کریں،بلکہ بیع سَلَم کی شرائط مدِ نظر رکھتے ہوئے باہم بیع سلم کر لیں۔بیع سلم خریدوفروخت کا ایسا طریقہ ہے جس میں اس چیز کا بیچنا بھی شرعی طور پر جائز ہوجاتا ہے،جو انسان کی ملکیت میں نہ ہواور اس معاہدے میں خریداراس بات کا پابند ہوتا ہے کہ وہ چیز کا معاوضہ معاہدہ کرتے وقت ہی ادا کردے،البتہ چیز اس کو ایک طے شدہ مدت کے بعد ملتی ہے۔اس طریقے سے خرید و فروخت کرنے میں آڑھتی اور کسان دونوں کی ضرورت پوری ہو جائے گی یعنی کسان کو فوری رقم مل جائے گی اور آڑھتی کو مخصوص مدت کےبعد فصل مل جائے گی۔ لیکن اس خریدوفروخت کامخصوص طریقہ اور مخصوص شرائط ہیں جنہیں پورا کرنا ضروری ہے، مثلا اس میں معاہدہ کرتے وقت بیچی جانے والی چیز کی جنس(یعنی وہ کیا چیز ہے) اس کی قسم ، کوالٹی، مقداراورادائیگی کی مدت اور ادائیگی کا مقام طے کرنا ضروری ہوتا ہے،مثلا:اگر گندم کی خریدو فروخت کا معاملہ ہو،توگندم بیچنے والا یوں کہے کہ:” میں نے تمہیں فلاں کوالٹی کی، اتنے من گندم،اتنے روپے میں بیچی، جو اتنے مہینوں بعد فلاں جگہ سپرد کی جائے گی “اور خریدار کہے کہ:” میں نے خریدی“پھر وہ رقم اسی مجلس میں سپرد کر دے۔اسی مجلس میں اگر مکمل رقم اد انہ کی گئی،تو یہ معاملہ حرام ہو جائے گا۔ یاد رہے کہ بیع سلم کےطور پر جو چیز خریدی جار ہی ہے،وہ اس قسم کی ہونی چاہیے کہ خریدو فروخت سےلے کر ادائیگی کے وقت تک بازار سے مل سکے،ورنہ معاملہ ناجائز ہو جائے گا،مثلاً گندم کی خریداری میں نئی گندم دینے کا تذکرہ نہ کیا جائے،کیونکہ اگر نئی گندم اس وقت بازار میں موجود نہ ہوئی،تو بیع سلم درست نہیں ہو گی۔ نیز گندم دینے کی مدت ایک ماہ یا اس سے زیادہ ہونا ضروری ہے۔مدت ایک ماہ سے کم نہیں رکھ سکتے۔ بیع سلم کی زیادہ وضاحت کے ساتھ مثال کےلیے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کا یہ فتوی ملاحظہ فرمائیں، آپ سے سوال ہوا:’’ کٹوتی کا روپیہ پیشگی دے دیا اورا ناج فصل پر لینا ٹھہرا،کن کن شرطوں سے جائز ہے؟‘‘ توآپ رحمۃ اللہ علیہ نےاسے بیع سلم قرار دینے کے بعد بیع سلم کی شرائط بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:”اسے بیع سلم کہتے ہیں،یہ بارہ شرطوں سے جائز ہوتی ہے،اگران میں سے ایک بھی کم ہوگی،توبالکل ناجائزاورسود ہوجائے گی۔ (۱)اس شےکی جنس بیان کردی جائے،مثلا: گیہوں (یعنی گندم) یاچاول۔ (۲)وہ جنس اگر کئی قسم کی ہوتی ہے،تواس کی قسم معین کردی جائے،جیسےچاول میں باسمتی۔ (۳)اس کی صفت بیان کردی جائے،مثلا:عمدہ یاناقص۔ (۴)اس کی مقدارمعین کردی جائے،مثلا:اتنےمن۔ (۵)میعاد(یعنی ادائیگی کی مدت) معین کردی جائے،جو ایک مہینہ سےکم نہ ہو۔ (۶)اگروہ چیز باربرداری(کسی جگہ اٹھا کر پہنچانے) کی ہے،جس کے یہاں سےوہاں لے جانے میں خرچ ہوگا،تو وہ جگہ بھی معین کی جائے،جہاں پہنچنا منظورہے۔ (۷)ثمن( آپس کی طے شدہ قیمت یعنی کرنسی وغیرہ) کی بھی تعیین ہوجائے،مثلا: روپےیا اشرفی۔ (۸)اگروہ ثمن چند قسم کا ہوتا ہے،تو قسم بھی معین کردے،مثلا:اشرفی محمد شاہی یاانگریزی۔ (۹)کھرے،کھوٹے کا بیان بھی ہو،(کھرا کھوٹا ہونا پرانے زمانے کی اشرفیوں وغیرہ میں ہوتا تھا)۔ (۱۰)اگرثمن اس قسم کا ہے کہ اس کے ہر ٹکڑے کے مقابل شےمبیع کاٹکڑا ہوتاہے، جیسےسونا،چاندی۔۔ تو ایسے ثمن کی تعیین مقدار بھی ضرورہے۔۔یہ دسوں باتیں خاص عقد ایجاب وقبول میں بیان کرنی ضروری ہیں۔ مثال اس کی یہ ہےکہ زید ،عمرو سے کہے:میں نےتجھ سے بریلی کی تول (پیمائش)سے،دس من پختہ چاول ہنسراج کھرے،بالعوض سوروپے انگریزی چہرہ دار کے،آج سے چارمہینے کے وعدہ پر،بریلی پہنچتے ہوئے خریدے۔وہ کہے:میں نے بیچےیامیں نےتجھ سےبدایوں کے وزن سے، چارمن پکا گھی بھینس کاخالص،آج سے دومہینے کے وعدہ پر مرادآباد پہنچتاہوا،بالعوض چھ اشرفی محمد شاہی بیس بیس روپے والی کے خریدا۔ وہ کہے:میں نے بیچا۔یہ سب باتیں خوب خیال کرلی جائیں کہ لوگوں میں آج کل بیع سلم کا بہت رواج ہے،ان زبانی شرطوں کے ترک سےحلال کوناحق اپنےلیےحرام کرلیتےاور خدا کے گناہ میں گرفتارہوتے ہیں۔ (۱۱)شرط یہ کہ (آپس میں سودا کرنے کے)اسی جلسہ میں ثمن ادا کردیا جائے۔ (۱۲)وہ چیز اس قسم کی ہو کہ روز ِعقد سے ختم میعاد تک ہر وقت بازار میں مل سکے،ورنہ عقدناجائزہوگا۔اسی لیے اگر گیہوں کی کٹوتی میں یہ لفظ کہہ دیئے کہ نئے گیہوں لیں گےاوراس وقت نیا گیہوں بازار میں نہیں،تو ناجائز وگناہ ہےاور اسی سبب سے رس کی کٹوتی جو ایکھوں کے وقت کرتے ہیں،حرام ہوئی کہ رس اس وقت بازار میں نہیں ہوتا۔“ (فتاوی رضویہ،جلد17،صفحہ569تا571،رضا فاؤنڈیشن،لاھور) نوٹ:بیع سلم کن چیزوں میں ہو سکتی ہے اور کن میں نہیں اوراس کے مزید احکام ومسائل جاننے کے لیے بہارِ شریعت،جلد2،حصہ11 سےبیع سلم کے باب کا مطالعہ فرمائیں۔ چونکہ عام طور پر لوگوں کو اس کی شرائط اور طریقہ کار معلوم نہیں ہوتا،اس لیے اگر کسی نے بیع سلم کا یہ طریقہ اپنانا ہو تو بہتر ہے کہ وہ کسی مستند سنی مفتی صاحب سے اچھی طرح سیکھ کر پھر یہ معاملہ کرے،تاکہ گناہ سے بچ سکے۔ سوال نمبر:5 کئی مرتبہ قرض دیتے وقت صراحۃًیا دلالۃًیہ بھی طے ہوتا ہے کہ آڑھتی کسان سے مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت پرفصل خریدےگا،مثلا: ہزار روپے کی چیز ساڑھے نوسو روپے کے حساب سے خریدے گایا مارکیٹ میں رائج اجرت سےزیادہ آڑھت لے کر بیچے گا،مثلا: دوسرے عام آڑھتی کو سو میں دو روپے کمیشن دی جاتی ہے،تو قرض دینے والے آڑھتی کو تین روپے کمیشن دی جائے گی۔کیا اس طرح مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت پر فصل خریدنے اور زیادہ آڑھت لینے کی شرط لگانا درست ہے؟ جواب: قرض دیتے وقت اگر صراحۃ یا دلالۃ (2) یہ طے ہو کہ آڑھتی کسان سے مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت پر فصل خریدے گایا اس کی فصل زیادہ آڑھت لے کر بیچے گا،تو یہ سود پر مشتمل ہونے کی وجہ سے ناجائز اور گناہ ہے، کیونکہ اوپر معلوم ہو چکا کہ قرض دیتے وقت اسی آڑھتی کو فصل بیچنے کی شرط لگاناہی جائز نہیں ہے کہ یہ قرض پر نفع حاصل کرنا ہے،نیز یہاں فصل خریدنے کی صورت میں مارکیٹ ریٹ سےقیمت کم ہونے اور آڑھت پہ بیچنے کی صورت میں آڑھتs زیادہ ہونےکی جومنفعت حاصل ہورہی ہے،وہ بھی اسی قرض کی وجہ سے ہےاور قرض کی وجہ سے جو بھی منفعت حاصل ہو،وہ سودہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’
کل قرض جر منفعۃ فھو ربوا ‘‘ترجمہ:ہر وہ قرض جو نفع کھینچے،تو وہ سود ہے ۔ ( کنز العمال ،جلد16،صفحہ238، مؤسسۃ الرسالہ ،بیروت ) اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا:’’زید نے عمرو کو روپیہ اس شرط پر دیا کہ چار ماہ کے بعد تم سے روپیہ مذکور کے پچیس من گندم لیں گے، یہ جائز ہے یا نہیں؟‘‘تو اس کے جواب میں ارشاد فرمایا:”اگر روپیہ قرض دیا اور یہ شرط کر لی کہ چار مہینے کے بعد ایک روپے کے پچیس من گیہوں لیں گےاور نرخ بازار پچیس سیر سے بہت کم ہے،تو یہ محض سوداور سخت حرام ہے،حدیث میں ہے :” کل قرض جر منفعة فھو ربوا “جو قرض نفع کو کھینچے وہ سود ہے ۔‘‘ (فتاوی رضویہ،جلد17،صفحہ334،رضا فاؤنڈیشن،لاھور) نوٹ:پھرعُرف سے بڑھ کرزیادہ آڑھت لینے میں ایک خرابی یہ بھی ہے کہ آڑھتی کی شرعی حیثیت دلال/بروکر کی ہوتی ہے اور دلال فقط اجرتِ مثل کا مستحق ہوتا ہے(یعنی اتنے کام کی عرف میں جتنی اجرت چل رہی ہو،اتنی ہی لے سکتا ہے)اس سے زیادہ کا حقدار نہیں ہوتا،حتی کہ اگر زیادہ مقررکر لی،تب بھی اجرت مثل ہی ملے گی،لہذا اس اعتبار سے بھی آڑھتی کا عرف سے زیادہ کمیشن لینا جائز نہیں ہے۔ محیطِ برہانی میں ہے:’’ وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل وما تواضعوا عليه أن من كل عشرة دنانير كذا، فذلك حرام عليهم ‘‘ترجمہ:اوردلال اور سمسار(مختلف بروکرزکے اجارے میں) اجرتِ مثل واجب ہوتی ہے اور وہ جو یہ شرط لگاتے ہیں کہ ہر دس (دینار ) میں اتنے دینار دینے ہوں گے،تو یہ حرام ہے۔ (محیطِ برھانی،جلد7،صفحہ485،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت) اور غمز عیون البصائر میں اس کی علت یوں بیان کی گئی ہے :’’ وجوب أجر المثل معلل بأن ذلك عمل يستحق بعقد الإجارة إلا أنه غير مقدر بقدر فيجب أجر المثل ‘‘ترجمہ:اجرتِ مثل واجب ہونے کی علت یہ ہے کہ اس عمل کا استحقاق اگرچہ عقدِ اجارہ کے سبب ہوا ہے،لیکن اس کی کوئی مقدار مقرر نہیں ہے،لہذا اجرتِ مثل واجب ہو گی۔ (غمز عیون البصائر،جلد3،صفحہ129، دار الکتب العلمیہ،بیروت) سوال نمبر:6 بعض اوقات کسان اپناسامان بیچنے کے لیے آڑھتی کی دوکان پہ پہنچا دیتا ہے،پھرآڑھتی کسان کی رضا مندی سے وہ سامان ادھار بیچ دیتا ہے اور کسان کو فوراً پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے،تو وہ آڑھتی سے کہتا ہے کہ آپ مجھے اپنے پاس سے رقم دے دو ،آپ خریدار سے وصول کر لینا،آڑھتی کسان کو رقم دے دیتا ہے اور بعد میں اتنی رقم خریدار سے وصول کر لیتا ہے۔کیا یہ طریقہ درست ہے؟ جواب: پوچھی گئی صورت میں جتنی رقم خریدار سے وصول کرنی ہے،اگر اتنی ہی رقم آڑھتی کسان کو دیتا ہے اور بعد میں وہ رقم خریدار سے وصول کر لیتا ہے،تو یہ شرعاً جائز ہے،کیونکہ کسان آڑھتی سے جو رقم لیتا ہے ،اس کی شرعی حیثیت قرض کی ہے اور کسی سے قرض لینے کے بعد اسے یوں کہا جائے کہ آپ یہ رقم مجھ سے وصول کرنے کی بجائے فلاں شخص سے لے لینااور قرض خواہ اسی مجلس میں اسے قبول کر لے،تو یہ شرعاً درست ہے،شریعت کی اصطلاح میں اسے حوالہ کہتے ہیں اور حوالہ بالاتفاق جائز ہے۔البتہ اگر کسان اور آڑھتی کے درمیان یہ طے ہو کہ جتنی رقم خریدار سے وصول کرنی ہےآڑھتی اس سے کم رقم کسان کو دے گااور بعد میں پوری رقم خریدار سے وصول کرے گا،تو یہ قرض پر نفع ہونے کی وجہ سے سود ہے،جو جائز نہیں۔ صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:’’آڑھت میں غلہ وغیرہ ہر قسم کی چیز بیچنے والے لا کر جمع کر دیتے ہیں اور خریدنے والے آڑھت والے سے خریدتے ہیں، اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ خریدار سے ابھی دام وصول نہیں ہوئے اور بیچنے والے اپنے وطن کو واپس جانا چاہتے ہیں، آڑھت والے اپنے پاس سے دام دے دیتے ہیں، خریدار سے وصول ہو گا، تو رکھ لیں گے، یہاں اگرچہ بظاہر حوالہ نہیں، مگر اس کو حوالہ ہی کے حکم میں سمجھنا چاہیے یعنی بائع نے آڑھتی سے قرض لیا اور مشتری پر حوالہ کر دیا کہ اس سے وصول کر لے،لہٰذا اگر آڑھتی کو مشتری سے دَین وصول نہ ہو سکا کہ وہ مفلس مرا،تو آڑھتی بائع سے اُس روپیہ کو وصول کر سکتا ہے۔‘‘ (بھارِ شریعت،جلد2،صفحہ882تا883،مکتبۃ المدینہ،کراچی) اور حوالہ کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:’’دین کو اپنے ذمہ سے دوسرے کے ذمہ کی طرف منتقل کر دینے کو حوالہ کہتے ہیں ۔۔حوالہ کے رکن ایجاب و قبول ہیں، مثلاً: مدیون یہ کہے:میرے ذمہ جو دین ہے،فلاں شخص پر میں نے اس کا حوالہ کیا۔ محتال لہ(قرض خواہ) اور محتال علیہ(جس پر حوالہ کیا گیا ہے ،انہوں) نے کہا: ہم نے قبول کیا ۔۔محتال کا اسی مجلس میں قبول کرنا(ضروری ہے)یعنی اگر مدیون نے حوالہ کر دیا اور دائن وہاں موجود نہیں، جب اس کو خبر پہنچی اس نے منظور کر لیا یہ حوالہ صحیح نہ ہوا۔ ہاں اگر مجلسِ حوالہ میں کسی نے اس کی طرف سے قبول کر لیا، جب خبر پہنچی اس نے منظور کر لیا، یہ حوالہ صحیح ہو گیا۔۔جب حوالہ صحیح ہو گیا، محیل یعنی مدیون دین سے بری ہوگیا۔‘‘ (بھارِ شریعت،جلد2،صفحہ874تا876، مکتبۃ المدینہ،کراچی) سوال نمبر:7 بعض اوقات کسان اپنی گندم اورچاول وغیرہ آڑھتی کے پاس رکھ دیتے ہیں اور ان کی طرف سے آڑھتی کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ ان چیزوں کو اپنے پاس رکھے یابیچ دے،جب کسان کو ضرورت ہو گی ،تووہ آڑھتی سے اس طرح کی گندم اورچاول وغیرہ وصول کر لے گایااُس وقت ان چیزوں کا جوریٹ ہوگااتنی رقم لےلے گا۔آڑھتی عمومی طور پران چیزوں کو خرچ کر دیتا ہے اوران میں سے کچھ بطور سیمپل اپنے پاس رکھ لیتا ہے،پھر جب کسان ضرورت پڑنے پر ان چیزوں یا ان کی رقم کا مطالبہ کرتا ہے،توآڑھتی یہ چیزیں یاان کی رقم کسان کو دے دیتا ہےاور کچھ رقم ان چیزوں کی حفاظت کی اجرت کے طور پر کسان سے وصول کر لیتا ہے۔آڑھتی کویہ چیزیں دیتے وقت خریدوفروخت کے الفاظ بالکل نہیں بولے جاتے۔سوال یہ ہے کہ آڑھتی اور کسان کے مابین ہونے والا یہ معاملہ درست ہے یا نہیں؟ جواب: پوچھی گئی صورت میں کسان اور آڑھتی کے درمیان ہونے والایہ معاہدہ شرعاً جائز نہیں ہے۔تفصیل اس بارے میں یہ ہے کہ یہاں کسان آڑھتی کو گندم اور چاول وغیرہ بیچتا نہیں، کیونکہ خریدوفروخت کے لیے صراحۃً یا دلالۃً ایجاب و قبول(3) کا پایا جانا ضروری ہےاور وہ یہاں نہیں پائے جاتے،لہذا یہ خریدوفروخت نہیں اوراسے امانت بھی نہیں کہہ سکتے،کیونکہ جو چیز امانت کے طور پر رکھی جائے،توواپسی پر بعینہ اسی چیز کو واپس کرناضروری ہوتا ہےاورجس شخص کے پاس امانت رکھوائی جائے اسے اس چیز کے استعمال کا اختیار نہیں ہوتا،بلکہ اس نے صرف اپنے پاس حفاظت سے رکھنی ہوتی ہے،جبکہ یہاں اسی چیز کی واپسی کی شرط نہیں ہوتی ،بلکہ اس کی مثل گندم وغیرہ یا اس کی قیمت میں سے کوئی ایک چیز لینا طے ہوتاہے،نیز آڑھتی کو اس میں مالکانہ تصرف کا اختیاربھی دے دیا جاتاہے کہ وہ چاہے تو بیچ دے یا خود استعمال کر لےاور امانت کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی جائے ،تو وہ قرض ہو جاتا ہے،لہذا یہ امانت بھی نہیں،بلکہ لامحالہ قرض ہےاور قرض کا اصول یہ ہے کہ واپسی پہ اس کی مثل چیز لوٹائی جاتی ہے،اس کے علاوہ کسی اور چیز کی شرط لگانا حرام اور گناہ ہوتاہے۔لہذا یہ معاہدہ ناجائز اور گناہ ہے۔ مزید یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ مذکورہ صورت میں جب آڑھتی کے پاس گندم اورچاول وغیرہ کی حیثیت قرض کی ہے،تو آڑھتی کا ان چیزوں کی حفاظت کے نام پر کسان سے اجرت لینا بھی جائز نہیں ہے،کیونکہ قرض لینے والا قرض میں لی جانے والی چیز کا مالک ہو جاتا ہےاور اپنی ہی چیز کی حفاظت کی اجرت کسی اور سے لینا جائز نہیں ہوتا۔ بیع (خریدوفروخت) کے لیے ایجاب و قبول کا پایا جانا ضروری ہے،جیسا کہ فتاوی شامی میں ہے:’’ أن ركنه الإيجاب والقبول الدالان على التبادل أو ما يقوم مقامهما من التعاطي، فركنه الفعل الدال على الرضا بتبادل الملكين من قول أو فعل ‘‘ترجمہ:بیع کا رکن ایجاب و قبول کےایسے الفاظ ہیں،جو تبادلے پر دلالت کریں یا جوچیز اس ایجاب و قبول کے قائم مقام ہو،یعنی کچھ بولے بغیر باہم لین دین کرنا،پس بیع کا رکن ایسا فعل ہے جو دو مملوکہ چیزوں کے باہم تبادلے میں رضا مندی پر دلالت کرے،چاہے وہ قول ہو یا کوئی عمل۔ (فتاوی شامی ،جلد4،صفحہ504،مطبوعہ دار الفکر ،بیروت) امانت میں بعینہ اس چیز کو لوٹانا ضروری ہوتا ہے۔چنانچہ درر الحکام میں ہے :” الودیعة والعاریة یجب ردھما عینا “ترجمہ:امانت اور عاریت کو بعینہ لوٹانا واجب ہوتا ہے۔ (درر الحکام شرح مجلة الاحکام، جلد3، صفحہ82، دار الجیل) امانت میں تصرف کی اجازت دے دی جائے ،تو وہ قرض بن جاتا ہے۔چنانچہ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں :’’ہاں چندہ دہندہ اجازت دے جائیں تو حرج نہیں ، اس حالت میں جب سیٹھ تصرف کرے گا، روپیہ امانت سے نکل کر اس پر قرض ہوجائے گا، جو عندالطلب دینا آئے گا،اگرچہ کوئی میعاد مقرر کردی ہو۔ ‘‘ (فتاوی رضویہ،جلد19،صفحہ 166،رضا فاؤنڈیشن،لاھور) مزید ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:”بیان سائل سے واضح ہُوا کہ ہنوز اُس مکان کی بیع نہیں ہُوئی، وعدہ خرید و فروخت درمیان آیاہےاور اِسی بناءپر زید نے مالکِ مکان کو دوسوروپے پیشگی دے دیے اور اُسے اجازت دی کہ خرچ کرلے، یہ صورت قرض کی ہُوئی ،ثمن کہہ نہیں سکتے کہ ابھی بیع ہی نہیں ہوئی، ا مانت نہیں کہہ سکتے کہ خرچ کی اجازت دی ،لاجرم قرض ہے۔ ’’ فی لسان الحکام والعقود الدریة وغیرھما دفع الیہ دراھم فقال لہ انفقھا ففعل فھو قرض کما لوقال اصر فھاالی حوائجک ‘‘لسان الحکام اور عقود الدریہ وغیرہما میں ہے کہ کسی کو دراہم دیئے اور کہا کہ انہیں خرچ کرلو، اس نے خرچ کردیے تو یہ قرض ہے ،جیسا کہ اگر کسی نے یہ کہا ہو کہ انہیں اپنی ضروریات پر خرچ کرلے۔ “ (فتاوی رضویہ، جلد10، صفحہ149، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور) قرض خواہ کا نفع والی شرط کے ساتھ قرض دینا حرام ہے ۔چنانچہ در مختار میں خلاصہ کے حوالہ سے ہے:’’ القرض بالشرط حرام والشرط لغو ‘‘شرط کے ساتھ قرض دینا حرام ہے اور شرط لغو ہے۔ ( درمختار، کتاب البیوع، فصل فی القرض، جلد5، صفحہ166، دار الفکر، بیروت ) قرض لینے والا قرض میں لی گئی چیز کا مالک ہو جاتا ہے۔چنانچہ درمختار میں ہے :”( ویملک ) المستقرض ( القرض بنفس القبض عندھما ) ای الامام ومحمد “ترجمہ: امام اعظم و امام محمد رحمۃ اللہ علیہما کے نزدیک قرض لینے والا قرض پر قبضہ کرتے ہی اس کا مالک بن جاتا ہے۔ (درمختار ، کتاب البیوع، فصل فی القرض، جلد5، صفحہ164، دار الفکر، بیروت) سوال نمبر:8 اگر کسان کا آڑھتی کے پاس اس طرح جنس رکھوا نا،جائز نہیں ہے،تو اس کے جواز کی صورت کیا ہے،کیونکہ بیج وغیرہ کی حفاظت کے پیشِ نظر کسانوں کو اس طرح کی صورت پیش آتی رہتی ہے؟ جواب: اس کے جواز کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ کسان آڑھتی کو گندم اور چاول وغیرہ دیتے وقت یہ طے کرے کہ یہ چیزیں تمہارے پاس قرض ہیں،انہیں بیچو یا اپنے پاس رکھو،اس کا تمہیں اختیار ہے،بعد میں مجھے جب ضرورت ہو گی ،تو میں بالکل اسی طرح کے اور بغیر کمی زیادتی کے اتنے ہی چاول یاگندم وغیرہ تم سے لے لوں گااور آڑھتی اسے قبول کر لے،تو یہ معاہدہ درست ہو جائے گا۔پھر جب بوقتِ ضرورت کسان آڑھتی سے اپنی گند م اور چاول وغیرہ طلب کرے،تو آڑھتی پر اسی طرح کی اتنی گندم اور چاول وغیرہ دینا لازم ہوگا۔اگر آڑھتی اس کسان کی دی ہوئی گندم یا چاول وغیرہ صرف کر چکا ہواور اب اس طرح کے چاول یا گندم وغیرہ اس کے پاس موجود نہ ہوں یا موجود تو ہوں،لیکن کسان اور آڑھتی گندم اور چاولوں وغیرہ کے بجائے ان کی قیمت لینے دینے پہ رضا مند ہو جائیں،تو پھر ان کی قیمت لینا بھی جائز ہو جائے گا،لیکن اس صورت میں یہ ضروری ہے کہ جس مجلس میں قیمت لینے اور دینے پہ راضی ہوں،تو اسی مجلس میں قیمت ادا بھی کر دی جائے،ورنہ یہ معاملہ ناجائز ہو جائےگا، کیونکہ یہ ادھار کی ادھار کے بدلے خریدوفروخت ہوگی اور حدیث میں اس سے منع کیا گیا ہے ۔ بدائع الصنائع میں ہے:” وان کان الدین مکیلا او موزونا فباعہ بدراھم او بدنانیر او بفلوس او اشتری ھذہ الاشیاءبدینہ جاز،لان الدراھم والدنانیر ثمنان علی کل حال، وکذا الفلوس عند مقابلتھا بخلاف جنسھا فکان من علیہ الدین مشتریا بثمن لیس عندہ، وذلک جائز، لکن یشترط القبض فی المجلس لئلا یؤدی الی الافتراق عن دین بدین “ترجمہ:اور اگر کوئی ماپ کر یا تول کر بکنے والی چیز دَین (کسی کے ذمہ لازم) تھی ،تو اس نے اس کو دراہم، دنانیر یا سِکوں کے بدلے فروخت کر دیا یا یہ اشیاءاپنے دین کے بدلے خرید لیں، تو یہ جائز ہے، کیونکہ دراہم و دنانیر تو ہر حال میں ثمن ہوتے ہیں، یونہی سِکو ں کا تبادلہ بھی جب ان کی جنس کے علاوہ کسی اور چیز سے ہو، تو سِکے بھی ثمن بنتے ہیں، تو گویا یہ یوں ہوا کہ جس پر دین تھا اس نے ایسے ثمن سے چیز خریدی جو اس کے پاس نہیں ہے اور یہ جائز ہے، لیکن مجلس میں قبضہ شرط ہے تاکہ افتراق عن دین بدین کی صورت نہ بنے۔ (بدائع الصنائع، جلد5، صفحہ236، دار الکتب العلمیہ، بیروت) شرح معانی الآثار میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ،وہ فرماتے ہیں :’’ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم نھی عن بیع الکالی بالکالی ‘‘ ترجمہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ادھار کی ادھار کے بدلے خرید وفروخت کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ (شرح معانی الآثار ،جلد4،صفحہ21،مطبوعہ عالم الکتب)
(1])یہاں اصل نسخے میں لفظِ”نہ“ ہے اور وہ کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے، اصل عبارت یوں ہونی چاہیے ” نصاًیادلالۃ مشروط ہو“جیسا کہ سیاق و سباق سے واضح ہے۔ہم نے صحیح کرکے لکھ دیا ہے۔ (2)صراحۃً کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی شرط واضح طور پر لفظوں میں بیان کر کے طے کر لی جائےاور دلالۃًکا مفہوم یہ ہے کہ واضح طور پر لفظوں میں تو شرط طے نہیں کی،لیکن جہاں یہ معاملہ ہو رہا ہے وہاں مشہور و معروف ہے کہ اس معاملے میں یہ شرط ہوتی ہی ہوتی ہے،چاہے لفظوں میں اسے بیان نہ بھی کیا جائے۔ (3)ایجاب و قبول کی آسان الفاظ میں وضاحت سوال و جواب نمبر 3 کے حاشیے میں گزری ہے۔

کتاب کا موضوع

کتاب کا موضوع

Sirat-ul-Jinan

صراط الجنان

موبائل ایپلیکیشن

Marfatul Quran

معرفۃ القرآن

موبائل ایپلیکیشن

Faizan-e-Hadees

فیضانِ حدیث

موبائل ایپلیکیشن

Prayer Time

پریئر ٹائمز

موبائل ایپلیکیشن

Read and Listen

ریڈ اینڈ لسن

موبائل ایپلیکیشن

Islamic EBooks

اسلامک ای بک لائبریری

موبائل ایپلیکیشن

Naat Collection

نعت کلیکشن

موبائل ایپلیکیشن

Bahar-e-Shariyat

بہار شریعت

موبائل ایپلیکیشن