حضرتِ سیدنا الیاس علیہ السلام(قسط 01)

انبیائے کرام کے واقعات

حضرت سیدنا الیاس علیہ السّلام(قسط:1)

*مولانا ابوعبید عطاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ مئی 2024ء

حضور خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے جب اِس دنیا سے پردہ فرمایا تو حضرت سیّدُناابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ حاضر ہوئے اور اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ پڑھا پھر نبی پاک پر دُرود شریف پڑھتے ہوئے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فضائل بیان کرنے لگے تو گھر والوں کے رونے کی آوازیں بلند ہو گئیں جنہیں مسجد کے نمازیوں نے بھی سنا اور جب جب مصطفٰے جانِ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے فضائل ومحاسن بیان کرتے تو رونے کی آوازوں میں بھی اضافہ ہوجاتا،البتہ کمی اس وقت آئی جب ایک باہمت شخص نے دروازے پرآکر بلند آواز سے کہا: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم اے گھر والو! فرمانِ باری تعالیٰ ہے:(كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِ)ترجَمۂ کنزُالایمان:ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔([1]) بےشک! بارگاہ ِ الٰہی میں ہر ایک نے پیش ہونا ہے، اسی کی بارگاہ میں ہر پسندیدہ چیز کا بدلہ ہے، قیامت کے دن تمہیں پورا پورا اجر دیا جائے ،اور ہرخوف سےنجات ملے گی لہٰذا اللہ سے امید باندھو اور اسی پر بھروسا کرو،گھر والوں نے اس آواز کو غور سے سنا مگر جان نہ سکے کہ کس کی ہے لہٰذاسب نے چُپ سادھ لی، جب سب خاموش ہوگئے تو آواز آنا بھی بند ہوگئی، کسی نے باہر دیکھاتو کوئی نظر نہ آیا،گھر والےپھر سے رونا شروع ہوئے تو ایک اور اجنبی آواز آئی: اے گھروالو!ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو اور اسی کی تعریف بیان کروتاکہ تمہارا شمار مخلص بندوں میں ہوجائے، بے شک! آزمائش کے وقت یادِ الٰہی قائم کرنے پر صبر آجاتا ہے اور پسندیدہ چیز لئےجانے پر یادِ الٰہی قائم کرنے میں اس کابدلہ ہے لہٰذا اس کی فرماں برداری کرو اور اس کے حکم پر عمل کرو۔ حضرت ابوبکر صدیق رضیَ اللہ عنہ نے فرمایا: یہ دونوں آوازیں حضرت سیِّدُنا خضر اورحضرت سیِّدُنا الیاس علیہماالسَّلام کی ہیں جو کہ بارگاہ ِ رسالت میں حاضر ہوئے ہیں۔([2])

پیارے اسلامی بھائیو! آئیے حضرت سیدُنا الیاس علیہ السَّلام کی سیرت مبارکہ کے کچھ نورانی اور بابرکت پہلوؤں کا مطالعہ کیجئے اور اپنےلئے راہِ نجات کا سامان کیجئے۔

مختصر سیرت: ”الیاس“اللہ تعالیٰ کے ایک بہت ہی پیارے نبی کا نام ہے، الیاس عبرانی زبان کا لفظ ہے([3]) جس کا معنی ہے: اللہ کے سوا ہر کسی سے بےپروا ہونا([4]) یا پھر الیاس کا مطلب ہے  ”نہ بھاگنے والا بہادر شخص“۔([5]) قراٰن میں آپ کا نام اِلیاس اور اِل یاسین دونوں مذکور ہیں۔ آپ کے والد کا نام سباسبا جبکہ والدہ کا نام صفوریہ ہے،آپ کی دادی حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی بیٹی جبکہ دادا حضرت  ہارون علیہ السّلام کے بیٹے ہیں، ایک قول کے مطابق سلسلہ نسب کچھ یوں ہے الیاس بن سباسبا بن عیزار بن ہارون۔([6])

حلیہ و اوصاف: آپ علیہ السَّلام کا قد لمبا، سر مبارک بڑا، پیٹ مبارک اندر کی طرف یعنی بدن دبلا پتلا تھا اور پتلی ٹانگیں تھیں جبکہ کھال کھردری اور خشک تھی، آپ کے سر پر سرخ تل تھا۔([7]) آپ اعلیٰ درجےکے کامل الایمان بندوں میں سے ہیں، آپ کو 70 انبیاءِ کرام کی طاقت بخشی گئی، غضب و جلال اور قوت و طاقت میں حضرت موسیٰ علیہ السَّلام کا ہم پلہ بنایا گیا([8]) بلکہ آپ صورت میں بھی حضرت موسیٰ علیہ السَّلام سے مشابہت رکھتے تھے([9]) آگ، پہاڑ اور جنگل کے شیر آپ کے تابعدار تھے۔([10])

 رسالت: بنی اسرائیل ملک شام کے مختلف شہروں میں آباد تھے، آپ شہر بعلبک میں بنی اسرائیل کی طرف رسول بن کر تشریف لائے اور انہیں تبلیغ و نصیحت فرمائی، اللہ تعالیٰ نے ظالم بادشاہ کے شر سے بچاتے ہوئے آپ کو لوگوں کی نظروں سے اوجھل فرما دیا۔([11])

 چار نبی اب تک زندہ ہیں: یاد رہے کہ چار انبیاء علیہم ُالصلوٰۃ والسلام وہ ہیں جن پر ابھی ایک آن کیلئے بھی موت طاری نہیں ہوئی۔ دو آسمان پر حضرت ادریس اور حضرت عیسیٰ اور دو زمین پر حضرت خضر اور حضرت الیاس علیہمُ الصلوٰۃ والسلام([12]) نیز یہ بھی یاد رکھیں کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آخری نبی ہونے کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے زمانہ میں اور آپ کے زمانہ کے بعد کوئی نبی پیدا نہ ہوگا، اگر پہلے کے کوئی نبی زندہ ہوں تو مضائقہ نہیں ان کی زندگی حضور انور کے خاتم النبیین ہونے کے خلاف نہیں۔([13])

بارگاہِ رسالت میں حاضری: حضرت الیاس علیہ السَّلام حضور ِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے لشکر کو ایک غار میں یہ دعا کرتے ملے: اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنْ اُمَّۃِ اَحْمَدَ الْمَرْحُوْمَۃِ الْمُبَارَکَۃِ الْمُسْتَجَابِ لَھَا یعنی اے ا! مجھے احمد کی امت سے بنادے جس پر تیری رحمت و برکت نازل ہوتی ہے اور جس کی دعائیں قبول کی جاتی ہیں([14]) اور پیارے آقا کی بارگاہ میں سلام پہنچانے کا فرمایا کہ آپ کے بھائی الیاس آ پ کو سلام بھیجتے ہیں، حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمغار میں تشریف لائے اور حضرت الیاس سے معانقہ فرمایا پھر دونوں مقدس حضرات نے وہیں بیٹھ کر آپس کی کچھ گفتگو بھی کی([15]) صلح حدیبیہ کے موقع پر جو بیعتُ الرضوان لی گئی اس میں حضرت خضر اور حضرت الیاس علیہما السَّلام بھی شامل تھے۔([16])

حضرت الیاس و حضرت خضر کی ملاقات: حضرت الیاس اور حضرت خضر دونوں نبی رمضان کے مبارک مہینے میں بیتُ المقدس میں ہوتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، دونوں صاحبان حج کو ہرسال تشریف لاتے ہیں بعدِ حج آبِ زمزم شریف پیتے ہیں کہ وہی سال بھر تک ان کے کھانے پینے کو کفایت کرتا ہے۔([17]) ایک روایت کے مطابق ہر سال حج کے موسم میں مِنیٰ کے مقام پر ملاقات کرتے، ایک دوسرے کا حلق فرماتے اور ان کلمات پر باہمی ملاقات ختم فرماتے ہیں: سُبْحٰنَ اللهِ مَا شَاءَ اللهُ لَا يَسُوقُ الْخَيْرَ اِلَّا اللَّهُ مَا شَاءَ اللَّهُ لَا يُصْلِحُ السُّوْ ءَ اِلَّا اللَّهُ مَا شَاءَ اللَّهُ لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللَّهِ یعنی اللہ پاک ہے، جو اللہ چاہے، بھلائی صرف اللہ لاتا ہے، جو اللہ چاہے، بُرائی کو صرف اللہ ٹالتا ہے، جواللہ چاہے، نیکی کی طاقت صرف اللہ کی توفیق سے ہے۔([18]) حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں: جو ان کلمات کو صبح و شام تین بار پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اسے ڈوبنے، جل جانے اور  (اس کا مال) چوری ہونے سے محفوظ رکھے گا، شیطان، ظالم بادشاہ، سانپ اور بچھو سے بھی حفاظت کی جائے گی۔([19])

 وفات مبارکہ: سال کے باقی دنوں میں حضرت الیاس علیہ السَّلام تو جنگلوں اور میدانوں میں گشت فرماتے رہتے ہیں اور پہاڑوں اور بیابانوں میں اکیلے اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں جبکہ حضرت خضر علیہ السَّلام دریاؤں اور سمندروں کی سیر فرماتے اور اپنے رب کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں،یہ دونوں مقدس حضرات دین محمدی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے احکامات کے تابع ہیں اور آخری زمانے میں وفات پائیں گے۔([20]) (جاری  ہے )

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، شعبہ ”ماہنامہ فیضانِ مدینہ“کراچی



([1])پ21، العنکبوت:57

([2])اتحاف السادۃ المتقین، 14/153- الرقۃ والبکاء لابن قدامہ مقدسی، ص140

([3])زرقانی علی المواہب،7/402

([4])ماہنامہ فیضانِ مدینہ، جمادَی الاخریٰ 1440ھ، ص48

([5])نام رکھنے کے احکام، ص131

([6])نہایۃ الارب فی فنون الادب، 14/10

([7])مستدرک، 3/470، حدیث: 4175-نہایۃ الارب فی فنون الادب، 14/17

([8])سیرت الانبیاء، ص722

([9])نہایۃ الارب فی فنون الادب،14/10

([10])نہایۃ الارب فی فنون الادب، 14/11

([11])سیرت الانبیاء،ص722-صراط الجنان، 8/341

([12])ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت،ص505

([13])مراٰۃ المناجیح،8/8ملتقطاً

([14])تاریخ ابن عساکر،9/213- فتاویٰ رضویہ،29/639

([15])فیض القدیر،3/672،تحت الحدیث:4133

([16])مراٰۃ المناجیح،8/274ملخصاً

([17])الجامع لاحکام القرآن للقرطبی،8/86،الصفت:123-فتاویٰ رضویہ، 26/401

([18])تاریخ ابن عساکر، 9/211

([19])سیرت حلبیہ، 3/212

([20])عجائب القرآن، ص:294- مستدرک، 3/470، حدیث: 4175-فیض القدیر، 4/572، تحت الحدیث: 5880۔


Share