حضرت سیدنا علیُّ المرتضیٰ رضی اللہُ عنہ کے مشورے

روشن ستارے

مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ حضرت سیّدُنا علیُّ المرتضیٰ رضی اللہُ عنہ کے مشورے

*مولانا عدنان احمد عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ2024ء

مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت سیّدُنا عمر فاروق رضی اللہُ عنہ فرمایا کرتے تھے: میں ایسے مشکل معاملے سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں جس کے حل کرنے میں ابوحسن (یعنی حضرت علیُّ المرتضیٰ کے مشورے) موجود نہ ہوں۔([1])

پیارے اسلامی بھائیو! حضرت سیّدُنا علیُّ المرتضیٰ رضی اللہُ عنہ کی مبارک سیرت کا ایک بہت ہی اہم پہلو یہ بھی ہے کہ آپ نے پہلے تینوں خلفائے راشدین کے دورِ خلافت میں اہم امور میں مشورے دئیے، جنہیں بڑی اہمیت دی گئی۔ آئیے! آپ بھی چند اہم مشورے ملاحظہ کیجئے:

سپہ سالار بنانے کا مشورہ: حضرت عَمرو بن عاص رضی اللہُ عنہ نے مصر اور اسکندریہ کو فتح کرنے کے بعد مزید فتوحات کی اجازت لینےکےلئے فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ کو ایک خط لکھا اور سالم کندی نامی ایک قاصد کےحوالے کرکے حضرت عمر رضی اللہُ عنہ کو پہنچانے کا حکم دیا،قاصد نمازِ عصرکے بعدمدینےپہنچا، اپنے اونٹ کو مسجدِ نبوی کے دروازے کے پاس بٹھایا پھر مسجد میں داخل ہوا۔ قبرِانور اور منبر کے درمیان نماز ادا کی، پھر آگے بڑھا تو حضرت عمر رضی اللہُ عنہ سے ملاقات ہوگئی انہیں سلام کیا، آپ نے سلام کا جواب دیا اور قاصد سے مصافحہ کیا، قاصد کہتے ہیں: جب فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ نے مجھے خوش دیکھا اور فرمایا: مرحبا! سالم مصر سے خط لایا ہے، میں نے توجہ کی تو وہاں دائیں جانب حضرت علی رضی اللہُ عنہ اور بائیں جانب حضرت عثمان رضی اللہُ عنہ موجود تھے اور آس پاس کئی معزز صحابہ رضی اللہُ عنہم بھی موجود تھے۔ میں نے خط فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ کے ہاتھ میں دے دیا، آپ نے فرمایا: اےسالم! اگر اللہ نے چاہا تو تم دنیا اور آخرت میں محفوظ و سلامت ر ہوگے، تو میں نے کہا: اے امیر المؤمنین! خوشخبری، سلامتی اور امن ہے، جب فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ نے خط پڑھا تو بہت خوش ہوئے کہ مالِ غنیمت کئی دن پہلے مدینہ پہنچ چکا تھا اور صحابہ میں تقسیم بھی ہو گیا تھا، پھر (مزید فتوحات کی اجازت دینے نہ دینے کے بارے میں)حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ نے وہاں موجود حاضرین اور حضرت علی رضی اللہُ عنہ سے مشورہ مانگا۔ حضرت مولا علی رضی اللہُ عنہ نے یہ مشورہ دیا: حضرت عَمرو بن عاص (فوج لے کر) خود آگے کوچ نہ کریں اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ دشمن کے دلوں میں ان کا خوف رہے گا۔ ہاں! دس ہزار سپاہیوں کا لشکر تیار کریں اور اس کا سپہ سالار حضرت خالد بن ولید کو بناکر (مزید فتوحات کے لئے) روانہ کردیں، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: خالد اللہ تعالیٰ کی تلوار ہے۔ اور ایک روایت میں ہے: بیشک خالد ایک ایسی تلوار ہیں جو اپنے دشمنوں کے مقابلے میں نیام میں نہیں رہتی۔([2])

فاروقِ اعظم کی حیثیت ہار میں ڈوری کی طرح ہے: ایک مرتبہ کوفہ میں اسلامی لشکر کے سپہ سالار کی طرف سے حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ کےپاس ایک خط پہنچا جس میں لکھا تھا، دشمن اپنے ڈیڑھ لاکھ سپاہی جمع کرچکا ہے اگر اسں نے ہم پر پہلے حملہ کردیا تو بہادری اور ہمت کے ساتھ حملہ کرے گا، اگر ہم نے حملہ کرنے میں جلدی کی تو یہ فائدہ مند ہوگا، فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ نے صحابۂ کرام سے مشورہ کیا: (میں آپ حضرات کے درمیان موجود ہوں اور) یہ ایسا دن ہے اس طرح کے دن اور بھی آئیں گے آپ لوگوں کی کیا رائے ہےکہ میں یہاں سے کچھ لوگوں کو ساتھ لے جاؤں اور وہاں قریب کسی مقام پر ٹھہر کر اسلامی لشکر جمع کروں اور مسلمانوں کی مدد کروں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو فتح عطا فرمادے۔اکثر صحابۂ کرام علیہم الرّضوان نے عرض کی: ہماری رائے یہ نہیں ہے (کہ آپ ان کے پاس چلے جائیں) ہاں! آپ کے مشورے اور رائے ان سے دور نہیں ہیں (یعنی ان کے کام آئیں گے) لڑنے کے لئے عرب کے شہ سوار اور جنگجو اور بہادر کافی ہیں ان ہی لوگوں نے دشمن کے لشکروں کو شکست فاش دی ہے، خط میں (پہلے) حملہ کرنے کی اجازت طلب کی ہے آپ اجازت دے دیں۔ بعض صحابہ نے اس رائے پر تنقید کی، پھر حضرت علی رضی اللہُ عنہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: اکثر حضرات نے جو رائے دی ہے وہ درست ہے جو تحریر آپ کے پاس آئی ہے اس کا یہی مطلب ہے۔ جنگ میں کامیابی اور ناکامی کا دارومدار تعداد کے کم یا زیادہ ہونے پر نہیں ہے، یہ تو اللہ کا دین ہے جس کو اس نے غالب کردیا ہے اور اسی کا لشکر ہے جسے اس نے فرشتوں کےذریعے مضبوط کیا یہاں تک کہ اسلامی لشکر اس مقام تک پہنچ گیا ہے ہم تو اللہ کے وعدے پر بھرو سا کرتےہیں وہی اپنے وعد ے کو پورا کرنے والا ہے اور اپنے لشکر کی مدد کرنے والا ہے،آپ کی حیثیت موتیوں والے ہار میں دھاگے کی ہے جو موتیوں کو اکھٹا اور روکے رکھتا ہے اگر خود ٹوٹ جائے تو موتی بکھر جاتےہیں، اہلِ عرب تعداد میں اگرچہ کم ہیں لیکن اسلام لانے کے سبب معزز ہوکر بکثرت ہوگئے ہیں لہٰذا آپ یہاں سے نہ جائیں اور اہلِ کوفہ عرب کے سردار اور معززین ہیں ان کو خط لکھ دیں کہ فوج کے دو حصے دشمن سے ٹکرائیں اور ایک حصہ وہیں ٹھہر جائے، بصرہ والوں کو لکھ کر بھیج دیجئے کہ وہ اسلامی فوج کی مدد کے لئے فوج کا ایک حصہ روانہ کردیں حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ ان معززین کی رائے اور مشورہ سن کر بہت خوش ہوئے۔([3])

ہم اللہ کی مدد سے دشمن سے ٹکراتے ہیں: مزید ایک مشورہ یہ آیا: شام اور یمن سے بھی فوج منگوالیں اور خود فوج لے کر جائیں گے تو دشمن کی کثیر تعداد بھی آپ کی نگاہ میں کم ہوگی اور آپ ہی غالب رہیں گے، یہ سُن کر حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ نے فرمایا: (آج میں آپ حضرات کے درمیان موجود ہوں اور) یہ ایک ایسا دن ہے اس طرح کے کئی دن اور بھی آئیں گے، اس پر پھر کئی آراء سامنے آئیں، یہ سُن کر حضرت مولا علی رضی اللہُ عنہ کھڑے ہوگئے اور عرض کرنے لگے: اے امیر المؤمنین! اگر آپ شام والوں سے شامی فوج روانہ کریں گے تو رومی اَفواج اہلِ شام کے گھر والوں پر حملہ کرد ے گی، اگر آپ یمن والوں سے یمنی سپاہیوں کو روانہ کریں گے تو حبشہ والے ان کے بال بچوں پر حملہ کردیں گے، اور اگر آپ بنفس نفیس یہاں سے کوچ کریں گے تو عرب کے آس پاس والے اس سرزمین پر ٹوٹ پڑیں گے یہاں تک کہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنا بیرونی معاملات سے زیادہ اہم ہوجائے گا لہٰذا آپ سب اسلامی افواج کو اپنے شہروں میں ہی رہنے دیں اور اہل بصرہ کو خط بھیج دیجئے کہ وہ فوج کو تین حصوں میں تقسیم کرلیں ایک حصہ اپنے اہل و عیال کی حفاظت کرے دوسرا حصہ وہاں مقامی ذمیوں کو بغاوت اور عہد شکنی سے روکنے کےلئے وہیں ٹھہرے اور تیسرا حصہ کوفہ میں اپنے بھائیوں کی مدد کیلئے پہنچ جائے۔ آپ کے جانے کے سبب عجمیوں نے اگرآپ کو وہاں دیکھا تو کہیں گے: یہ اہلِ عرب کے حاکم اور عرب کے ستون ہیں،لہٰذا یہ چیز ان میں شدید سختی لاسکتی ہے۔ اور بہرحال آپ نے یہ بھی بتایا تھا کہ دشمن کی فوجیں روانہ ہوچکی ہیں،(تو گزارش یہ ہے کہ) بےشک اللہ ناپسند کرتا ہے کہ دشمن کی فوجیں روانہ ہوں اور وہ اسے بدلنے پر زیادہ قدرت رکھتا ہے(یعنی اللہ اگر چاہے تو مسلمانوں کا رعب ودبدبہ دشمن پر طاری کردے اور وہ ڈر کر واپس پلٹ جائے)۔ اور رہی بات ان کی تعداد کی تو (آپ جانتےہی ہیں کہ) ہم گزشتہ زمانے میں بھی کثرتِ تعداد کے بل بوتے پر دشمن سے نہیں ٹکراتے رہے بلکہ ہم تو اللہ کریم کی مدد و نصرت کےساتھ دشمن سے ٹکراتے رہے ہیں۔([4])

شہادت: 40 ھ ماہِ رمضان کی 21 تاریخ کو مولا علی رضی اللہُ عنہ نے جامِ شہادت نوش فرمایا۔([5])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغُ التحصیل جامعۃُ المدینہ، شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1](البدایۃ والنہایہ،5/476

([2](فتوح الشام، 2/205ملخصاً

([3](تاریخ طبری، 4/123تا 124 ملخصاً

([4](تاریخ طبری، 4/124تا 125 ملخصاً

([5](تاریخ ابن عساکر،42/587۔


Share